محمد داؤد مصطفائی ؒ کے بچپن کی طرح ان کا لڑکپن بھی عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا۔والدین اور اساتذہ کی بہترین تربیت نے ان کے لڑکپن میں بھی خوبصورت رنگ بھرے اور داؤد مصطفائی اپنے لڑکپن میں روایتی لڑکوں سے ہٹ کر سنجیدہ ، بارعب اور نہایت سلجھے ہوئے انداز میں رہتے تھے۔
داؤد مصطفائی ؒ نے پنڈسلطانی سے آٹھویں جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول ٹوبہ دومیل میں جماعت نہم میں داخلہ لیااور یہاں سے میٹرک کی۔اس دوران آپ کو جن اساتذہ سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا ان میں ہیڈماسٹر سید سجاد حسین نقوی(بھٹیوٹ)، غلام خان صاحب (پنڈسلطانی)،محمد نذیر صاحب (پنڈسلطانی)،محمد بشیر صاحب (بسال)،عبدالعزیز صاحب(دندی جسوال،ناڑہ)،وزیر ابدالی صاحب(مکھڈ شریف) اور لباس خان صاحب(چھب) شامل تھے۔عبدالعزیز صاحب اور وزیر ابدالی داؤد مصطفائی ؒ کے پسندیدہ استاد تھے۔تمام اساتذہ داؤدمصطفائی ؒ سے بہت محبت کرتے تھے۔جب اساتذہ کے علم میں یہ بات آئی کہ داؤد مصطفائی سٹیج پر آکر چھوٹی موٹی تقریر کر لیتا ہے تو انہوں نے داؤدمصطفائی پر باضابطہ محنت کی او رکلاس اور سکول کی سطح پر داؤدمصطفائی تقریر کرنے لگے۔پہلی دفعہ جب کلاس سے نکل کر پورے سکول کے سامنے تقریر کی تو سکول میں جیسے ایک ہلچل سی مچ گئی۔وہ اساتذہ جو داؤد مصطفائی کو اس حوالے سے نہ جانتے تھے ایک لڑکے کی اتنی پرجوش آواز سن کر حیران رہ گئے اور ہر طرف سے داد و تحسین بلند ہونے لگی اور بہت سے اساتذہ اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔پھر فیصلہ ہوا کہ اس لڑکے (داؤدمصطفائی) کو ضلعی سطح کے تقریری مقابلے میں بھیجا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیااور ضلع بھر میں داؤدمصطفائی نے تقریری مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔
داؤدمصطفائی شروع سے ہی کسی کے ساتھ زیادتی ہوتا نہ دیکھ سکتے تھے۔پھر اگر کوئی ان کے ہم جماعت یا دوستوں سے زیادتی کرے یہ کیسے ممکن تھا کہ داؤد مصطفائی اس کے مقابلے کو نہ آئے۔ایک دفعہ ٹھیکیدار محمد اقبال مرحوم (جو داؤد مصطفائی کے ہم جماعت تھے) کی دومیل کے کچھ لڑکوں سے کسی بات پر لڑائی ہوئی۔دوسرے دن دومیل والے لڑکوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔کسی طرح داؤد مصطفائی کو اس بات کا علم ہو گیا۔انہوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کو نہ بتایا اور خود اپنے ایک ہم جماعت جاوید اقبال بیگ کو اپنے ہمراہ لے کر محمد اقبال سے بہت پہلے دومیل منڈی پر پہنچ گئے۔جہاں دومیل کے لڑکوں نے محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔داؤدمصطفائی کی آمد کا جب دومیل کے لڑکوں کو علم ہوا تو وہ مقابلے کے لیے آئے ہی نہیں۔اِدھر داؤدمصطفائی اور جاوید اقبال بیگ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے بیٹھے تھے کہ سکول کے وقت پر ٹھیکیدار محمد اقبال بھی آگیا اور حیران ہوا کہ یہ لوگ آج اتنا جلدی کیوں آگئے اور ڈنڈے لے کر کیوں بیٹھے ہیں۔محمد اقبال کے پوچھنے پر داؤدمصطفائی نے جب اصل ماجرا سنایا تو محمد اقبال ، داؤ دمصطفائی کے اس تعاون پر بہت خوش ہوا۔دونوں کی یہ دوستی آخری دم تک قائم رہی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ داؤد مصطفائی دوستوں پر بہت مہربان اور ان کی خاطر جان دینے والے شخص تھے۔
ایک دفعہ داؤدمصطفائی کے ایک ہم جماعت دوست نے ایک لڑکے کا چاقو بطور مذاق کہیں چھپا دیا۔چاقو والے لڑکے نے استاد سے شکایت کر دی۔استادصاحب نے کچھ لڑکوں کو بلا کر پوچھا جب انہوں نے نہ بتایا تو انہوں نے کان پکڑا کر اچھا خاصا مارا ۔ داؤدمصطفائی مار کھاتے رہے مگر دوست کا راز فاش نہ کیا۔
داؤد مصطفائی اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔پوری زندگی میں اگر کوئی شخص ان کے اساتذہ کے خلاف کوئی بات کرتا تو وہ ا س کا گریبان پکڑ لیتے تھے۔ایک دفعہ دومیل سکول کے پی ٹی آئی ممتاز احمد ہمدانی کی شا ن میں مٹھیال کے لڑکوں نے گستاخی کی تو داؤدمصطفائی نے ان لڑکوں کو للکارا اور کہاکہ ’’ہمدانی صاحب!آپ فکر نہ کریں۔مجھ سے ہو کر ہی کوئی آپ تک پہنچے گا۔‘‘
بچپن کی نسبت لڑکپن میں داؤد مصطفائی کے مذہبی رجحان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔کئی لڑکوں کو نعت خوانی کی طرف لگایا۔داؤد مصطفائی کے ایک ہم جماعت پرویز نمبردار جن کا نعت کی طرف بالکل رجحان نہ تھا، داؤدمصطفائی کے کہنے پر نعت شریف پڑھنا شروع کی اور آخرکار اول انعام حاصل کیا ۔چھٹی ساتویں جماعت کی عمر سے ہی داؤدمصطفائی نے اپنے محلے کے عالم دین جو داؤد مصطفائی کے استاد بھی تھے(قاضی فیض عالم)سے درخواست کی کہ ہر جمعہ کی رات نماز عشاء کے بعد آپ نوجوان لڑکوں سے کچھ خطاب کیا کریں جس میں انہیں اپنے عقیدے کا پابند بنائیں۔نماز، روزہ وغیرہ کی تلقین کریں ۔قاضی فیض عالم مرحوم نے یہ کام بطریق احسن سر انجام دیا۔اس کام میں داؤدمصطفائی کے محلے کے دوستوں محمد زمان اور حبیب الرحمٰن ٹیلر نے بھی ان کا بڑا ساتھ دیا۔
داؤدمصطفائی کا ذہن بچپن سے ہی تنظیم سازی کی طرف تھا۔دوستوں کے ساتھ مل کر اور ایک جماعت کی شکل میں چلنا اور کوئی کام کرنا انہیں بہت پسند تھا۔۱۹۸۱ء سے ہی وہ کسی تنظیمی فورم کی تلاش میں تھے۔میٹرک سے فارغ ہو کر انہوں نے اس کام پر زیادہ توجہ دی۔اور دوستوں اور محلے کے لڑکوں کو اکھٹا کر کے اپنی ایک تنظیم قائم کرلی۔اس تنظیم کے مقاصد میں اپنے مسلک کا پرچار ، نعت خوانی ، محفل قرآن کا انعقاد ،غریبوں کی مدد، منشیات کے خلاف آواز اٹھانا، محلے کی مسجد کی توسیع وغیرہ شامل تھے۔داؤدمصطفائی مذہبی انتہا پسند نہ تھے مگر وہ شروع سے ہی اپنے مسلک کا پرچار اپنا فرض سمجھتے تھے۔وہ اپنے مسلک کا بہت بڑا دفاع بھی تھے۔سچے اور پکے عاشق رسولؐ تھے۔
اسی تنظیم کے فورم سے داؤد مصطفائی نے اپنی لڑکپن کی عمر میں ہی اپنے محلے کے دوستوں سے مل کر منشیات کے خلاف کام کرنا بھی شروع کیا۔بعد میں اگرچہ اس کام نے بڑی وسعت اختیار کر لی تھی مگر شروع شروع میں اس کا طریقہ کار نہایت سادہ تھا۔داؤد مصطفائی اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر نشے کے چھوٹے موٹے ڈوں ، ڈیروں اور بیٹھکوں پر جاتے اور نشہ کرنے والے نوجوانوں کو نشے کے مضر اثرات کے بارے میں بتاتے تھے داؤد مصطفائی کا یہ انداز نہات پیاربھرا اور اصلاح والا ہوتا تھے۔ اپنی لڑکپن کی عمر سے ہی نشے کے عادی افراد سے دوستی پیدا کر کے ان سے نشے کا عمل چھڑوا دینا داؤد مصطفائی کا بڑا کارنامہ ہے۔بعد میں یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور محلے کے ایک دکان دار ( حبیب الرحمٰن ٹیلر) کے ذریعے معلومات لی جاتیں کہ کون کون نشہ کرتا ہے اور کہاں سے آتا یا تیا ر ہوتا ہے ۔پھر ممکن حد تک ان تمام لوگوں کی اصلاح کرتے تھے۔
اس تنظیم کے ذریعے داؤد مصطفائی نے اپنے محلے کی مسجد میں عید الفطر کے دوسرے روز عید ملن پروگرام بھی شروع کیا۔ اس پروگرام میں ملکی سطح کے مذہبی سکالرز کر بلایا جاتا تھا۔داؤدمصطفائی ان سکالر ز کو خاص طور پر ہدایت کرتے کہ قرآن وسنت سے ہٹ کر کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو مذہبی یا مسلکی منافرت کا باعث بنے۔
میٹرک کے بعد داؤد مصطفائی نے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر جنڈ میں دوستوں کے ہمراہ داخلہ لیا۔ پہلے دوسرے روز ہی نیو خان بس والوں سے جھگڑا ہو گیا۔ چند دن بعد داؤدمصطفائی نے ٹریننگ سینٹر چھوڑ دیا۔جھگڑے کی وجہ بھی داؤدمصطفائی کے دوست تھے۔
داؤد مصطفائی شروع سے ہی غریب کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے۔ہر قیمت پر غریب کا ساتھ دیتے تھے۔یہاں تک کہ ایک دفعہ داؤدمصطفائی اپنی والدہ سے محض اس بات پر خفاہو گئے کہ وہ محلے کے مصلیوں کے بچوں کو بہت خفا ہوئیں۔جب داؤد مصطفائی کو پتہ چلا تو ان کا رنگ سرخ ہو گیا کہ غریب کے بچوں کو والدہ کیوں خفاہوئیں۔اسی غصے کی حالت میں والدہ سے کہا کہ ’’ اگر آپ میری والدہ نہ ہوتیں تو میں آپ سے ان غریبوں کو خفا ہونے کا بدلہ لیتا۔‘‘
داؤدمصطفائی مولانا الشاہ احمد نورانی ؒ کے تحریک ختم نبوت اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ذاتی طور پر ان کی شخصیت سے داؤد مصطفائی کو عشق کی حد تک عقیدت تھی۔اسی عقیدت نے داؤدمصطفائی کو مولانا اشاہ احمد نورانیؒ کی جماعت جمیعت علمائے پاکستان کی طرف کھینچ لایا۔میٹرک کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ ؒ حاجی غلام قادر کے ہمراہ جمیعت علمائے پاکستان کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اٹک گئے۔ پروگرام میں حاجی غلام قادر ( جو جمیعت علمائے پاکستان کے رہنما تھے) سے درخواست کی گئی کہ وہ تقریر کریں تو انہوں نے اپنی جگہ داؤد مصطفائی کا نام دے دیا۔ اس سے قبل داؤد مصطفائی نے اس طرح کے پروگرام میں تقریر نہ کی تھی۔اچانک اپنا نام سن کر چہرہ سرخ ہو گیا۔مگر تقریر کے لیے اٹھ کر چلے گئے اور بہت آہستہ آہستہ اور نرم لب و لہجے میں تقریر کی۔یہ داؤدمصطفائی کی کسی بڑے جلسے میں پہلی تقریر تھی۔پروگرام کے بعد داؤدمصطفائی نے حاجی غلام قادر سے گلہ کیا کہ جب میں تقریر کے لیے تیار نہ تھا تو آپ نے میرا نام کیوں دیا تو حاجی غلام قادر نے کہا کہ ’’آپ نے بڑا لیڈر بننا ہے۔لیڈر کو خطاب کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔آئندہ جب بھی کسی پروگرام کے لیے آؤ تو تیار ہو کر آیا کرو۔‘‘ پھر داؤد مصطفائی بھی ایسا ہی کرتے رہے۔
داؤدمصطفائی کالڑکپن کی عمر میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ۱۹۸۶ء میں سنتِ رسولؐ ( داڑھی) رکھنے کے حوالے سے ایک دفعہ خصوصی مہم چلائی اور اپنے بہت سارے دوستوں اور دیگر لوگوں کو تیار کیا کہ وہ سنت کے مطابق داڑھی رکھناشروع کریں ۔جب کچھ دوست تیار ہو گئے تو داؤد مصطفائی نے ۲۷ رمضان المبارک کی تاریخ کا اعلان کیا کہ اِ س تاریخ کو ہم سب داڑھی رکھیں گیا اور اس کے بعد شیو نہ کرائیں گے۔اس تاریخ کو خود داؤدمصطفائی نے بھی داڑھی رکھی اور ان کے دوستوں محمد امین ، محمد زمان اور سیف اللہ وغیرہ نے بھی داڑھیاں رکھیں۔ گویا داؤدمصطفائی کی ترغیب سے کئی لوگ سنت پر عمل پیرا ہوئے۔
آج تک کے لیے اتنا ہی۔۔۔! آ پ کو یہ کالم کیسا لگا۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا ۔اگرآپ کے پاس داؤد مصطفائی کے حوالے سے کوئی بات یا ان کی کوئی تصویر ہو تو برائے مہربانی مجھ تک پہنچائیں۔شکریہ
no doubt mustafai was a very kind n nice man. bt es column mei makhan bht ziada lgaya gia hai. i m sure agr mustafai sb yesbprhtay to unko b acha na lagta. ek aur bat unki ghalti ko b quality bna k fakhar se paish kiya gia. teacher k ki bat na mani ar es bat ko fakgar se unki quality bna dia gia.
Thank u Mr Naveed. Me ne jis sence mi bat ki Ap osko na smaj sky…. makhan wali b koi bat nhi. thanks 4 ur coments