Historical dhariyan of Pindsultani

پنڈسلطانی کی تاریخی ڈھیریاں

پنڈسلطانی کے ایک تاریخی گاؤں ہونے کی چند نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہاں کی تاریخی ڈھیریاں بھی ہیں۔کہا یہ جاتاہے کہ یہ تاریخی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھیں۔میں آج کے کالم میں اِسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا

پنڈسلطانی اور گردونواح کی ایک بڑی آؓبادی پنڈسلطانی کی بڑی تاریخی ڈھیری سے تو واقف ہے۔مگر اِس ڈھیری سے ذرا فاصلے پر دو الگ الگ مقامات پر موجود چھوٹی ڈھیریوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ان میں سے پہلی چھوٹی ڈھیری محلہ ٹیہہ کے گرلز سکول کے قریب پیر صاحبان کے پرانے کنویں اور بی بی صاحبہ کی زیارت کے درمیان بتائی جاتی ہے جو اب تک تقریباََ منہدم ہو چکی ہے۔تاہم جن بزرگوں کی عمریں ۱۰۰ سال کے قریب ہیں انہوں نے اس ڈھیری کو بھی کافی بلندی کی حالت میں دیکھا تھا۔اب اس کے صرف نشانات باقی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔

اگر ہم بڑی ڈھیری سے لاری اڈہ پنڈسلطانی کی طرف (پیدل راستے پر) آئیں تو دوسری چھوٹی ڈھیری اس راستے پر آتی ہے۔یہ زمین اب سردار احمد خان کی ہے لیکن ڈھیری نسبتاََ محفوظ ہے۔یہ کوئی دو تین کنال جگہ ہے جہاں چند پرانے درخت اور ایک قبر ہے۔اس قبر کے بارے میں بھی کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کس کی ہے۔یہ ڈھیری بھی اب زمین سے صرف چھ سات فٹ تک بلند رہ گئی ہے۔کچھ مٹی لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں اور کچھ بارشوں سے بہہ گئی ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں پر سلطان محمود غزنوی کی برصغیر آمد اور حملوں کے حوالے سے لکھی گئی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا ضروری خیال کرتاہوں۔
میں نے جب پنڈسلطانی کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے سلطان محمود غزنوی کے حوالے سے ان کے یہاں پڑاؤ کا ذکر کیا تو مجھے تاریخ کا علم رکھنے والے چند دوستوں نے بتایا کہ ہماری تاریخی کتب میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ سلطان محمود غزنوی اس راستے سے گزرا ہے۔اِ س سلسلے میں ، میں صرف اتنا عرض کروں گا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری تاریخ اِس حوالے سے بالکل خاموش نظر آتی ہے۔اگر موجودہ دور میں کسی نے تاریخ کی کتاب لکھ دی اور کہہ دیا کہ سلطان محمود غزنوی فلاں مقام سے گزرا تھا تو یہ اس مورخ کی محض قیاس آرائی بھی ہو سکتی ہے۔ہماری کسی بھی معتبر تاریخی کتاب میں تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر پر جو حملے کیے ان حملوں کے لیے کون کون سے راستے استعمال ہوئے ۔صرف چند مقامات کے نام ملتے ہیں۔اِسی لیے نامور مورخ ، مصنف اور صحافی سید حسن ریاض کو اپنی کتاب ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ کے صفحہ ۸ پر سلاطینِ غزنویہ کے دور کے بارے میں کہنا پڑا کہ
’’یہاں کیا حالات تھے اس کا کسی جگہ مفصل ذکر نہیں ۔اس دور کی تاریخ بالکل تاریکی میں ہے۔‘‘
اس حوالے سے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مؤرخین نے سلطان محمود غزنوی کو جی ٹی روڈ سے اس طرح سے گزاراہے جیسے وہ گاڑیوں میں سفر کر رہاہو اور اس کا محض چند گھنٹوں کا سفر ہو اور وہ یہ بات ( آج کے قاری کی طرح)بھول گئے کہ سلطان محمود غزنوی کا زمانہ گھوڑے ، خچر اور ہاتھی کا زمانہ ہے۔ہزاروں کی تعداد میں پیدل فوج کا زمانہ ہے۔اور پھر یہ بھی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر کے اسفار کے دوران کئی کئی ماہ اور سال یہاں قیام بھی کیا تھا۔
رہا یہ سوال کہ کیا سلطان محمود غزنوی پنڈسلطانی کے علاقے سے گزرا یا نہیں اورکیا اس نے یہاں قیام بھی کیا یا نہیں؟ جہاں تک میری معلومات ہیں پنڈسلطانی کا علاقہ افغانیوں کی گزرگاہ رہا ہے۔اس کا واضح ثبوت افغانستان سے آنے والی وہ سڑک ہے جو پشاور ، اٹک خورد سے اٹک شہر کے انتہائی مغرب میں گڑیالہ سے ہو کر کالا چٹا پہاڑ میں داخل ہوتی ہے اور ناڑہ موڑ ، دومیل ریلوے سٹیشن ، دومیل اور پنڈسلطانی کے مغرب سے ہوتی ہوئی ، پنڈسلطانی کے پرانے پولیس سٹیشن سے گزر کر سیدھی کوہاٹ روڈ سے مل جاتی ہے۔یقیناََانگریز دور میں ریلوے سٹیشن دومیل (جس کا پرانا نام پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن تھا) اور پولیس اسٹیشن پنڈسلطانی اسی قدیم گزرگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہوں گے۔
اگر کالا چٹا کے درمیان آباد علاقوں (گنڈا کس ، لالو بنگلہ، ڈھوک موہری اور کالی ڈلی وغیرہ) کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پہاڑ میں مختلف مقامات پر قبریں ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ سلطان محمود غزنوی اور افغانستان سے آنے والے دیگر حملہ آوروں کے وفات پا جانے والے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔اِس کا مطلب ہے کہ جب افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی گزرگاہ یہ علاقہ رہا ہے تو پھر یہ بات سچ ہو گی کہ سلطان محمود غزنوی بھی اس راستے سے ایک یا زیادہ مرتبہ یہاں سے گزرا ہو۔اور یہاں قیام کیا ہو۔
پنڈسلطانی سے اٹک جاتے ہوئے، کالا چٹا پہاڑ میں گنڈا کس چوک سے تقریباََ دو سو میٹر کے فاصلے پر صدیوں پرانا ایک تالاب ہے جو یقیناََ کسی بادشاہ یا حکومت کا بنا یا ہوا ہے۔یہ ایک پختہ اینٹوں اور خوبصورت پتھروں سے بنایا ہوا تالاب ہے۔ جس کے ایک طرف پانی کھڑاہوتاہے اور دوسری طرف چند سو افراد کے بیٹھنے کے لیے ہموار جگہ ہے۔خطرناک پہاڑی علاقے میں تالاب اس خوبصورتی سے بنایا گیا ہے کہ انسان اور جانور دونوں پانی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ تالاب بھی اس علاقے کے پرانی گزرگاہ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اب میں واپس پنڈسلطانی کی تیسری اور سب سے بڑی ڈھیری کی طرف آتاہوں۔جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھی تاکہ اس کی فوج اس پر ڈیرہ ڈال سکے اور اگر اس کا کوئی دشمن دور سے آتا دکھائی دے ، تو وہ اپنی فوج کو بروقت تیار کرلے ۔یہ ڈھیری قدرتی طور پر بنی ہوئی نہیں ہے اور خود ساختہ ہے۔ ڈھیری کا رقبہ ۲۵ کنال سے زائد ہو گا ۔ یہ ڈھیری ایسی جگہ بنائی گئی ہے جہاں آس پاس کے سارے علاقے میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے ۔ بڑی ڈھیری سے چھوٹی ڈھیریو ں کا فاصلہ تقریباََ دو سو سے تین سو میٹر ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ بڑی ڈھیری جو رقبے اور اونچائی کے لحاظ سے بہت اونچی ہے ، سلطان محمود غزنوی کی فوج کے لیے تھی جبکہ باقی چھوٹی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی اور اس کے مصاحبوں کے لیے تھی ۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ خاص خاص ہتھیا ر بھی چھوٹی ڈھیریوں پر رکھے جاتے اور جب قافلہ چلنے لگتا تو ان کی تقسیم کر دی جاتی تھی۔
جب برصغیر میں زمینوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو بڑی ڈھیری والی زمین پنڈسلطانی کے جس خاندان کے حصے میں آئی ۔ یہ خاندان کو ٹے والے ( کورٹ والے) کہلاتا تھا۔اب ڈھیری کی وجہ سے ان کو ’’ ڈھیری والا ‘‘ ہی کہا جاتاہے ۔ اب ڈھیری پر ان لوگوں کا ہی قبضہ ہے اور انہوں نے ڈھیری کے اوپر قبرستان بنا لیا ہے ۔ایک دو قبریں تو بہت ہی قدیم ہیں مگر اس خاندان نے اپنا قبرستان بنانے کے لیے ڈھیری کو اوپر سے ہموار کرنا شروع کیا ہے اور جب قبروں کے لیے جگہ کم ہوتی ہے تو تھوڑا سا اور ہموار کر لیتے ہیں۔ دراصل اس اقدام سے ڈھیری کی اونچائی کم ہو رہی ہے اور اس کی تاریخی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔پنڈسلطانی کے نامور شاعر ذوالفقار علی خان خنجرؔ کی قبر بھی اس بڑی ڈھیری پر ہی ہے۔ جب ڈھیری کے اوپر والے حصے کو ہموار کیا جارہا تھا تو نیچے سے کچھ قبریں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ پھر شاید ہموار کرنے کا عمل روک دیا گیا تھا۔ بڑی ڈھیری سے لو گوں کو لوہے کی ایسی کئی چیزیں ملی ہیں جو ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ مٹی اور پتھر کے برتن بھی ملے ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کسی نے طویل عرصہ قیام کیا ہے۔پنڈسلطانی کی تاریخ کے حوالے سے شہرت پانے والے نام خان خدا داد خان ، خان خواص خان اور رائے صاحب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی رہائش بھی بڑی ڈھیری پر ہوا کرتی تھی۔
موجودہ پنڈسلطانی جو ڈھیری کے قریب ہے ، تیسری بار آباد ہوا ہے ۔ لیکن اسے لوگوں کی عدم توجہی کہیں یا محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت کی لاپرواہی ، کہ پنڈسلطانی کی یہ تاریخی ڈھیری دن بدن شکست و ریخت کا شکار ہے اور آج ایک ہزار سال گزر جانے کے باوجود اس کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اگر آنے والے وقتوں میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو چھوٹی ڈھیریوں کی طرح یہ بڑی ڈھیری بھی اپنی تاریخی حیثیت کھو دے گی اور اس کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہوں گے۔
اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا۔۔۔شکریہ
والسلام

Read More

محمد داؤد مصطفائی ؒ کا لڑکپن

محمد داؤد مصطفائی ؒ کے بچپن کی طرح ان کا لڑکپن بھی عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا۔والدین اور اساتذہ کی بہترین تربیت نے ان کے لڑکپن میں بھی خوبصورت رنگ بھرے اور داؤد مصطفائی اپنے لڑکپن میں روایتی لڑکوں سے ہٹ کر سنجیدہ ، بارعب اور نہایت سلجھے ہوئے انداز میں رہتے تھے۔
داؤد مصطفائی ؒ نے پنڈسلطانی سے آٹھویں جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول ٹوبہ دومیل میں جماعت نہم میں داخلہ لیااور یہاں سے میٹرک کی۔اس دوران آپ کو جن اساتذہ سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا ان میں ہیڈماسٹر سید سجاد حسین نقوی(بھٹیوٹ)، غلام خان صاحب (پنڈسلطانی)،محمد نذیر صاحب (پنڈسلطانی)،محمد بشیر صاحب (بسال)،عبدالعزیز صاحب(دندی جسوال،ناڑہ)،وزیر ابدالی صاحب(مکھڈ شریف) اور لباس خان صاحب(چھب) شامل تھے۔عبدالعزیز صاحب اور وزیر ابدالی داؤد مصطفائی ؒ کے پسندیدہ استاد تھے۔تمام اساتذہ داؤدمصطفائی ؒ سے بہت محبت کرتے تھے۔جب اساتذہ کے علم میں یہ بات آئی کہ داؤد مصطفائی سٹیج پر آکر چھوٹی موٹی تقریر کر لیتا ہے تو انہوں نے داؤدمصطفائی پر باضابطہ محنت کی او رکلاس اور سکول کی سطح پر داؤدمصطفائی تقریر کرنے لگے۔پہلی دفعہ جب کلاس سے نکل کر پورے سکول کے سامنے تقریر کی تو سکول میں جیسے ایک ہلچل سی مچ گئی۔وہ اساتذہ جو داؤد مصطفائی کو اس حوالے سے نہ جانتے تھے ایک لڑکے کی اتنی پرجوش آواز سن کر حیران رہ گئے اور ہر طرف سے داد و تحسین بلند ہونے لگی اور بہت سے اساتذہ اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔پھر فیصلہ ہوا کہ اس لڑکے (داؤدمصطفائی) کو ضلعی سطح کے تقریری مقابلے میں بھیجا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیااور ضلع بھر میں داؤدمصطفائی نے تقریری مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔
داؤدمصطفائی شروع سے ہی کسی کے ساتھ زیادتی ہوتا نہ دیکھ سکتے تھے۔پھر اگر کوئی ان کے ہم جماعت یا دوستوں سے زیادتی کرے یہ کیسے ممکن تھا کہ داؤد مصطفائی اس کے مقابلے کو نہ آئے۔ایک دفعہ ٹھیکیدار محمد اقبال مرحوم (جو داؤد مصطفائی کے ہم جماعت تھے) کی دومیل کے کچھ لڑکوں سے کسی بات پر لڑائی ہوئی۔دوسرے دن دومیل والے لڑکوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔کسی طرح داؤد مصطفائی کو اس بات کا علم ہو گیا۔انہوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کو نہ بتایا اور خود اپنے ایک ہم جماعت جاوید اقبال بیگ کو اپنے ہمراہ لے کر محمد اقبال سے بہت پہلے دومیل منڈی پر پہنچ گئے۔جہاں دومیل کے لڑکوں نے محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔داؤدمصطفائی کی آمد کا جب دومیل کے لڑکوں کو علم ہوا تو وہ مقابلے کے لیے آئے ہی نہیں۔اِدھر داؤدمصطفائی اور جاوید اقبال بیگ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے بیٹھے تھے کہ سکول کے وقت پر ٹھیکیدار محمد اقبال بھی آگیا اور حیران ہوا کہ یہ لوگ آج اتنا جلدی کیوں آگئے اور ڈنڈے لے کر کیوں بیٹھے ہیں۔محمد اقبال کے پوچھنے پر داؤدمصطفائی نے جب اصل ماجرا سنایا تو محمد اقبال ، داؤ دمصطفائی کے اس تعاون پر بہت خوش ہوا۔دونوں کی یہ دوستی آخری دم تک قائم رہی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ داؤد مصطفائی دوستوں پر بہت مہربان اور ان کی خاطر جان دینے والے شخص تھے۔
ایک دفعہ داؤدمصطفائی کے ایک ہم جماعت دوست نے ایک لڑکے کا چاقو بطور مذاق کہیں چھپا دیا۔چاقو والے لڑکے نے استاد سے شکایت کر دی۔استادصاحب نے کچھ لڑکوں کو بلا کر پوچھا جب انہوں نے نہ بتایا تو انہوں نے کان پکڑا کر اچھا خاصا مارا ۔ داؤدمصطفائی مار کھاتے رہے مگر دوست کا راز فاش نہ کیا۔
داؤد مصطفائی اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔پوری زندگی میں اگر کوئی شخص ان کے اساتذہ کے خلاف کوئی بات کرتا تو وہ ا س کا گریبان پکڑ لیتے تھے۔ایک دفعہ دومیل سکول کے پی ٹی آئی ممتاز احمد ہمدانی کی شا ن میں مٹھیال کے لڑکوں نے گستاخی کی تو داؤدمصطفائی نے ان لڑکوں کو للکارا اور کہاکہ ’’ہمدانی صاحب!آپ فکر نہ کریں۔مجھ سے ہو کر ہی کوئی آپ تک پہنچے گا۔‘‘
بچپن کی نسبت لڑکپن میں داؤد مصطفائی کے مذہبی رجحان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔کئی لڑکوں کو نعت خوانی کی طرف لگایا۔داؤد مصطفائی کے ایک ہم جماعت پرویز نمبردار جن کا نعت کی طرف بالکل رجحان نہ تھا، داؤدمصطفائی کے کہنے پر نعت شریف پڑھنا شروع کی اور آخرکار اول انعام حاصل کیا ۔چھٹی ساتویں جماعت کی عمر سے ہی داؤدمصطفائی نے اپنے محلے کے عالم دین جو داؤد مصطفائی کے استاد بھی تھے(قاضی فیض عالم)سے درخواست کی کہ ہر جمعہ کی رات نماز عشاء کے بعد آپ نوجوان لڑکوں سے کچھ خطاب کیا کریں جس میں انہیں اپنے عقیدے کا پابند بنائیں۔نماز، روزہ وغیرہ کی تلقین کریں ۔قاضی فیض عالم مرحوم نے یہ کام بطریق احسن سر انجام دیا۔اس کام میں داؤدمصطفائی کے محلے کے دوستوں محمد زمان اور حبیب الرحمٰن ٹیلر نے بھی ان کا بڑا ساتھ دیا۔
داؤدمصطفائی کا ذہن بچپن سے ہی تنظیم سازی کی طرف تھا۔دوستوں کے ساتھ مل کر اور ایک جماعت کی شکل میں چلنا اور کوئی کام کرنا انہیں بہت پسند تھا۔۱۹۸۱ء ؁ سے ہی وہ کسی تنظیمی فورم کی تلاش میں تھے۔میٹرک سے فارغ ہو کر انہوں نے اس کام پر زیادہ توجہ دی۔اور دوستوں اور محلے کے لڑکوں کو اکھٹا کر کے اپنی ایک تنظیم قائم کرلی۔اس تنظیم کے مقاصد میں اپنے مسلک کا پرچار ، نعت خوانی ، محفل قرآن کا انعقاد ،غریبوں کی مدد، منشیات کے خلاف آواز اٹھانا، محلے کی مسجد کی توسیع وغیرہ شامل تھے۔داؤدمصطفائی مذہبی انتہا پسند نہ تھے مگر وہ شروع سے ہی اپنے مسلک کا پرچار اپنا فرض سمجھتے تھے۔وہ اپنے مسلک کا بہت بڑا دفاع بھی تھے۔سچے اور پکے عاشق رسولؐ تھے۔
اسی تنظیم کے فورم سے داؤد مصطفائی نے اپنی لڑکپن کی عمر میں ہی اپنے محلے کے دوستوں سے مل کر منشیات کے خلاف کام کرنا بھی شروع کیا۔بعد میں اگرچہ اس کام نے بڑی وسعت اختیار کر لی تھی مگر شروع شروع میں اس کا طریقہ کار نہایت سادہ تھا۔داؤد مصطفائی اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر نشے کے چھوٹے موٹے ڈوں ، ڈیروں اور بیٹھکوں پر جاتے اور نشہ کرنے والے نوجوانوں کو نشے کے مضر اثرات کے بارے میں بتاتے تھے داؤد مصطفائی کا یہ انداز نہات پیاربھرا اور اصلاح والا ہوتا تھے۔ اپنی لڑکپن کی عمر سے ہی نشے کے عادی افراد سے دوستی پیدا کر کے ان سے نشے کا عمل چھڑوا دینا داؤد مصطفائی کا بڑا کارنامہ ہے۔بعد میں یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور محلے کے ایک دکان دار ( حبیب الرحمٰن ٹیلر) کے ذریعے معلومات لی جاتیں کہ کون کون نشہ کرتا ہے اور کہاں سے آتا یا تیا ر ہوتا ہے ۔پھر ممکن حد تک ان تمام لوگوں کی اصلاح کرتے تھے۔
اس تنظیم کے ذریعے داؤد مصطفائی نے اپنے محلے کی مسجد میں عید الفطر کے دوسرے روز عید ملن پروگرام بھی شروع کیا۔ اس پروگرام میں ملکی سطح کے مذہبی سکالرز کر بلایا جاتا تھا۔داؤدمصطفائی ان سکالر ز کو خاص طور پر ہدایت کرتے کہ قرآن وسنت سے ہٹ کر کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو مذہبی یا مسلکی منافرت کا باعث بنے۔
میٹرک کے بعد داؤد مصطفائی نے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر جنڈ میں دوستوں کے ہمراہ داخلہ لیا۔ پہلے دوسرے روز ہی نیو خان بس والوں سے جھگڑا ہو گیا۔ چند دن بعد داؤدمصطفائی نے ٹریننگ سینٹر چھوڑ دیا۔جھگڑے کی وجہ بھی داؤدمصطفائی کے دوست تھے۔
داؤد مصطفائی شروع سے ہی غریب کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے۔ہر قیمت پر غریب کا ساتھ دیتے تھے۔یہاں تک کہ ایک دفعہ داؤدمصطفائی اپنی والدہ سے محض اس بات پر خفاہو گئے کہ وہ محلے کے مصلیوں کے بچوں کو بہت خفا ہوئیں۔جب داؤد مصطفائی کو پتہ چلا تو ان کا رنگ سرخ ہو گیا کہ غریب کے بچوں کو والدہ کیوں خفاہوئیں۔اسی غصے کی حالت میں والدہ سے کہا کہ ’’ اگر آپ میری والدہ نہ ہوتیں تو میں آپ سے ان غریبوں کو خفا ہونے کا بدلہ لیتا۔‘‘
داؤدمصطفائی مولانا الشاہ احمد نورانی ؒ کے تحریک ختم نبوت اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ذاتی طور پر ان کی شخصیت سے داؤد مصطفائی کو عشق کی حد تک عقیدت تھی۔اسی عقیدت نے داؤدمصطفائی کو مولانا اشاہ احمد نورانیؒ کی جماعت جمیعت علمائے پاکستان کی طرف کھینچ لایا۔میٹرک کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ ؒ حاجی غلام قادر کے ہمراہ جمیعت علمائے پاکستان کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اٹک گئے۔ پروگرام میں حاجی غلام قادر ( جو جمیعت علمائے پاکستان کے رہنما تھے) سے درخواست کی گئی کہ وہ تقریر کریں تو انہوں نے اپنی جگہ داؤد مصطفائی کا نام دے دیا۔ اس سے قبل داؤد مصطفائی نے اس طرح کے پروگرام میں تقریر نہ کی تھی۔اچانک اپنا نام سن کر چہرہ سرخ ہو گیا۔مگر تقریر کے لیے اٹھ کر چلے گئے اور بہت آہستہ آہستہ اور نرم لب و لہجے میں تقریر کی۔یہ داؤدمصطفائی کی کسی بڑے جلسے میں پہلی تقریر تھی۔پروگرام کے بعد داؤدمصطفائی نے حاجی غلام قادر سے گلہ کیا کہ جب میں تقریر کے لیے تیار نہ تھا تو آپ نے میرا نام کیوں دیا تو حاجی غلام قادر نے کہا کہ ’’آپ نے بڑا لیڈر بننا ہے۔لیڈر کو خطاب کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔آئندہ جب بھی کسی پروگرام کے لیے آؤ تو تیار ہو کر آیا کرو۔‘‘ پھر داؤد مصطفائی بھی ایسا ہی کرتے رہے۔
داؤدمصطفائی کالڑکپن کی عمر میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ۱۹۸۶ء ؁ میں سنتِ رسولؐ ( داڑھی) رکھنے کے حوالے سے ایک دفعہ خصوصی مہم چلائی اور اپنے بہت سارے دوستوں اور دیگر لوگوں کو تیار کیا کہ وہ سنت کے مطابق داڑھی رکھناشروع کریں ۔جب کچھ دوست تیار ہو گئے تو داؤد مصطفائی نے ۲۷ رمضان المبارک کی تاریخ کا اعلان کیا کہ اِ س تاریخ کو ہم سب داڑھی رکھیں گیا اور اس کے بعد شیو نہ کرائیں گے۔اس تاریخ کو خود داؤدمصطفائی نے بھی داڑھی رکھی اور ان کے دوستوں محمد امین ، محمد زمان اور سیف اللہ وغیرہ نے بھی داڑھیاں رکھیں۔ گویا داؤدمصطفائی کی ترغیب سے کئی لوگ سنت پر عمل پیرا ہوئے۔
آج تک کے لیے اتنا ہی۔۔۔! آ پ کو یہ کالم کیسا لگا۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا ۔اگرآپ کے پاس داؤد مصطفائی کے حوالے سے کوئی بات یا ان کی کوئی تصویر ہو تو برائے مہربانی مجھ تک پہنچائیں۔شکریہ
Armaan1465

Armaan1886

Armaan1887

Armaan1885

Read More