Historical dhariyan of Pindsultani

پنڈسلطانی کی تاریخی ڈھیریاں

پنڈسلطانی کے ایک تاریخی گاؤں ہونے کی چند نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہاں کی تاریخی ڈھیریاں بھی ہیں۔کہا یہ جاتاہے کہ یہ تاریخی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھیں۔میں آج کے کالم میں اِسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا

پنڈسلطانی اور گردونواح کی ایک بڑی آؓبادی پنڈسلطانی کی بڑی تاریخی ڈھیری سے تو واقف ہے۔مگر اِس ڈھیری سے ذرا فاصلے پر دو الگ الگ مقامات پر موجود چھوٹی ڈھیریوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ان میں سے پہلی چھوٹی ڈھیری محلہ ٹیہہ کے گرلز سکول کے قریب پیر صاحبان کے پرانے کنویں اور بی بی صاحبہ کی زیارت کے درمیان بتائی جاتی ہے جو اب تک تقریباََ منہدم ہو چکی ہے۔تاہم جن بزرگوں کی عمریں ۱۰۰ سال کے قریب ہیں انہوں نے اس ڈھیری کو بھی کافی بلندی کی حالت میں دیکھا تھا۔اب اس کے صرف نشانات باقی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔

اگر ہم بڑی ڈھیری سے لاری اڈہ پنڈسلطانی کی طرف (پیدل راستے پر) آئیں تو دوسری چھوٹی ڈھیری اس راستے پر آتی ہے۔یہ زمین اب سردار احمد خان کی ہے لیکن ڈھیری نسبتاََ محفوظ ہے۔یہ کوئی دو تین کنال جگہ ہے جہاں چند پرانے درخت اور ایک قبر ہے۔اس قبر کے بارے میں بھی کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کس کی ہے۔یہ ڈھیری بھی اب زمین سے صرف چھ سات فٹ تک بلند رہ گئی ہے۔کچھ مٹی لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں اور کچھ بارشوں سے بہہ گئی ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں پر سلطان محمود غزنوی کی برصغیر آمد اور حملوں کے حوالے سے لکھی گئی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا ضروری خیال کرتاہوں۔
میں نے جب پنڈسلطانی کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے سلطان محمود غزنوی کے حوالے سے ان کے یہاں پڑاؤ کا ذکر کیا تو مجھے تاریخ کا علم رکھنے والے چند دوستوں نے بتایا کہ ہماری تاریخی کتب میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ سلطان محمود غزنوی اس راستے سے گزرا ہے۔اِ س سلسلے میں ، میں صرف اتنا عرض کروں گا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری تاریخ اِس حوالے سے بالکل خاموش نظر آتی ہے۔اگر موجودہ دور میں کسی نے تاریخ کی کتاب لکھ دی اور کہہ دیا کہ سلطان محمود غزنوی فلاں مقام سے گزرا تھا تو یہ اس مورخ کی محض قیاس آرائی بھی ہو سکتی ہے۔ہماری کسی بھی معتبر تاریخی کتاب میں تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر پر جو حملے کیے ان حملوں کے لیے کون کون سے راستے استعمال ہوئے ۔صرف چند مقامات کے نام ملتے ہیں۔اِسی لیے نامور مورخ ، مصنف اور صحافی سید حسن ریاض کو اپنی کتاب ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ کے صفحہ ۸ پر سلاطینِ غزنویہ کے دور کے بارے میں کہنا پڑا کہ
’’یہاں کیا حالات تھے اس کا کسی جگہ مفصل ذکر نہیں ۔اس دور کی تاریخ بالکل تاریکی میں ہے۔‘‘
اس حوالے سے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مؤرخین نے سلطان محمود غزنوی کو جی ٹی روڈ سے اس طرح سے گزاراہے جیسے وہ گاڑیوں میں سفر کر رہاہو اور اس کا محض چند گھنٹوں کا سفر ہو اور وہ یہ بات ( آج کے قاری کی طرح)بھول گئے کہ سلطان محمود غزنوی کا زمانہ گھوڑے ، خچر اور ہاتھی کا زمانہ ہے۔ہزاروں کی تعداد میں پیدل فوج کا زمانہ ہے۔اور پھر یہ بھی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر کے اسفار کے دوران کئی کئی ماہ اور سال یہاں قیام بھی کیا تھا۔
رہا یہ سوال کہ کیا سلطان محمود غزنوی پنڈسلطانی کے علاقے سے گزرا یا نہیں اورکیا اس نے یہاں قیام بھی کیا یا نہیں؟ جہاں تک میری معلومات ہیں پنڈسلطانی کا علاقہ افغانیوں کی گزرگاہ رہا ہے۔اس کا واضح ثبوت افغانستان سے آنے والی وہ سڑک ہے جو پشاور ، اٹک خورد سے اٹک شہر کے انتہائی مغرب میں گڑیالہ سے ہو کر کالا چٹا پہاڑ میں داخل ہوتی ہے اور ناڑہ موڑ ، دومیل ریلوے سٹیشن ، دومیل اور پنڈسلطانی کے مغرب سے ہوتی ہوئی ، پنڈسلطانی کے پرانے پولیس سٹیشن سے گزر کر سیدھی کوہاٹ روڈ سے مل جاتی ہے۔یقیناََانگریز دور میں ریلوے سٹیشن دومیل (جس کا پرانا نام پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن تھا) اور پولیس اسٹیشن پنڈسلطانی اسی قدیم گزرگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہوں گے۔
اگر کالا چٹا کے درمیان آباد علاقوں (گنڈا کس ، لالو بنگلہ، ڈھوک موہری اور کالی ڈلی وغیرہ) کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پہاڑ میں مختلف مقامات پر قبریں ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ سلطان محمود غزنوی اور افغانستان سے آنے والے دیگر حملہ آوروں کے وفات پا جانے والے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔اِس کا مطلب ہے کہ جب افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی گزرگاہ یہ علاقہ رہا ہے تو پھر یہ بات سچ ہو گی کہ سلطان محمود غزنوی بھی اس راستے سے ایک یا زیادہ مرتبہ یہاں سے گزرا ہو۔اور یہاں قیام کیا ہو۔
پنڈسلطانی سے اٹک جاتے ہوئے، کالا چٹا پہاڑ میں گنڈا کس چوک سے تقریباََ دو سو میٹر کے فاصلے پر صدیوں پرانا ایک تالاب ہے جو یقیناََ کسی بادشاہ یا حکومت کا بنا یا ہوا ہے۔یہ ایک پختہ اینٹوں اور خوبصورت پتھروں سے بنایا ہوا تالاب ہے۔ جس کے ایک طرف پانی کھڑاہوتاہے اور دوسری طرف چند سو افراد کے بیٹھنے کے لیے ہموار جگہ ہے۔خطرناک پہاڑی علاقے میں تالاب اس خوبصورتی سے بنایا گیا ہے کہ انسان اور جانور دونوں پانی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ تالاب بھی اس علاقے کے پرانی گزرگاہ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اب میں واپس پنڈسلطانی کی تیسری اور سب سے بڑی ڈھیری کی طرف آتاہوں۔جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھی تاکہ اس کی فوج اس پر ڈیرہ ڈال سکے اور اگر اس کا کوئی دشمن دور سے آتا دکھائی دے ، تو وہ اپنی فوج کو بروقت تیار کرلے ۔یہ ڈھیری قدرتی طور پر بنی ہوئی نہیں ہے اور خود ساختہ ہے۔ ڈھیری کا رقبہ ۲۵ کنال سے زائد ہو گا ۔ یہ ڈھیری ایسی جگہ بنائی گئی ہے جہاں آس پاس کے سارے علاقے میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے ۔ بڑی ڈھیری سے چھوٹی ڈھیریو ں کا فاصلہ تقریباََ دو سو سے تین سو میٹر ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ بڑی ڈھیری جو رقبے اور اونچائی کے لحاظ سے بہت اونچی ہے ، سلطان محمود غزنوی کی فوج کے لیے تھی جبکہ باقی چھوٹی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی اور اس کے مصاحبوں کے لیے تھی ۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ خاص خاص ہتھیا ر بھی چھوٹی ڈھیریوں پر رکھے جاتے اور جب قافلہ چلنے لگتا تو ان کی تقسیم کر دی جاتی تھی۔
جب برصغیر میں زمینوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو بڑی ڈھیری والی زمین پنڈسلطانی کے جس خاندان کے حصے میں آئی ۔ یہ خاندان کو ٹے والے ( کورٹ والے) کہلاتا تھا۔اب ڈھیری کی وجہ سے ان کو ’’ ڈھیری والا ‘‘ ہی کہا جاتاہے ۔ اب ڈھیری پر ان لوگوں کا ہی قبضہ ہے اور انہوں نے ڈھیری کے اوپر قبرستان بنا لیا ہے ۔ایک دو قبریں تو بہت ہی قدیم ہیں مگر اس خاندان نے اپنا قبرستان بنانے کے لیے ڈھیری کو اوپر سے ہموار کرنا شروع کیا ہے اور جب قبروں کے لیے جگہ کم ہوتی ہے تو تھوڑا سا اور ہموار کر لیتے ہیں۔ دراصل اس اقدام سے ڈھیری کی اونچائی کم ہو رہی ہے اور اس کی تاریخی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔پنڈسلطانی کے نامور شاعر ذوالفقار علی خان خنجرؔ کی قبر بھی اس بڑی ڈھیری پر ہی ہے۔ جب ڈھیری کے اوپر والے حصے کو ہموار کیا جارہا تھا تو نیچے سے کچھ قبریں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ پھر شاید ہموار کرنے کا عمل روک دیا گیا تھا۔ بڑی ڈھیری سے لو گوں کو لوہے کی ایسی کئی چیزیں ملی ہیں جو ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ مٹی اور پتھر کے برتن بھی ملے ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کسی نے طویل عرصہ قیام کیا ہے۔پنڈسلطانی کی تاریخ کے حوالے سے شہرت پانے والے نام خان خدا داد خان ، خان خواص خان اور رائے صاحب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی رہائش بھی بڑی ڈھیری پر ہوا کرتی تھی۔
موجودہ پنڈسلطانی جو ڈھیری کے قریب ہے ، تیسری بار آباد ہوا ہے ۔ لیکن اسے لوگوں کی عدم توجہی کہیں یا محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت کی لاپرواہی ، کہ پنڈسلطانی کی یہ تاریخی ڈھیری دن بدن شکست و ریخت کا شکار ہے اور آج ایک ہزار سال گزر جانے کے باوجود اس کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اگر آنے والے وقتوں میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو چھوٹی ڈھیریوں کی طرح یہ بڑی ڈھیری بھی اپنی تاریخی حیثیت کھو دے گی اور اس کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہوں گے۔
اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا۔۔۔شکریہ
والسلام

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*