محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

پنڈسلطانی کا ایک قدیم محلہ ٹیہہ ہے جو کئی سو سال سے دومیل کا محلہ کہلا تا ہے۔اس محلے کی قسمت کے بارے میں ہر کوئی سوال کر تا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ پنڈسلطانی کی حدود میں واقع محلہ دومیل گاؤں کا محلہ کہلائے ۔ میں آج آپ کو اسی محلے articleکی کہانی سنا تا ہوں۔اس کے پس منظر میں جانے کے لیے کچھ دیر تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں:۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر میں مغلیہ سلطنت کو زوال آنا شروع ہو گیا۔اس زوال کی بنیا دیں خود اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہی رکھ دی گئی تھیں۔اورنگ زیب سخت گیر مذہبی خیالات کا حامل تھا اس نے ہندوؤں کے کچھ مندر گرا دیئے اور ہندو رسومات والے کچھ ادارے بھی بند کرا دیئے۔ موسیقی کا خاتمہ کیا ، جشنِ نو روز کو شیعہ تہوار قرار دے کر ختم کر دیا۔شعرا ء اور نجومیوں کو فضول شخصیات قرار دے کر دربار سے نکال دیا ۔خود پابند صوم و صلوٰۃ تھا ۔سادہ لباس، کم خوراک اور تھوڑی نیند کا عادی تھا۔مذہبی سخت گیری کی وجہ سے ہندوستان بھر سے سکھ ، مرہٹے اور دیگر ہندو راجپوتوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف اچھی خاصی افراتفری پیدا کی اور کسی حد تک مغلیہ سلطنت کے زوال کا باعث بھی بنے۔
جہانگیر کے زمانے میں سکھوں کے گورو ارجن نے شہزادہ خسرو ( جس نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تھی) کو پناہ دی۔جہانگیر نے گورو ارجن کو جرمانے کی سزا دی اور انکار پر اسے قتل کرادیا۔جس سے سکھوں میں اسلام دشمنی کا جذبہ پیدا ہو گیا ۔ گور و ارجن کے قتل کے بعد اس کے بیٹے گور و گوبند سنگھ نے سکھوں کو باقاعدہ فوجی تربیت دی اور مغلوں کے مقابلہ کے لیے تیار کیا۔۱۶۷۵ ؁ء سے ۱۷۰۸ ؁ء تک پنجاب میں سکھوں کو آخری گورو گوبند سنگھ نے بہترین فوجی تربیت دی۔سکھوں کو مخصوص لباس پہننے اور شکل و صورت اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ سکھوں کو ان کے باغیانہ خیالات نے لٹیرا بنا دیا ۔انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو لوٹنا شروع کر دیا۔خاص طور پر پنجاب میں (جو مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کا بھی صوبہ تھا)سکھوں نے اپنے باقاعدہ جتھے (گروہ) بنا لیے اور لوٹ مار کا خوب بازار گرم کیا ۔اس لوٹ مار کے دوران کئی مسلمان شہید بھی کئے گئے۔کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔
وقت تیزی سے گزرتا رہااور سکھ پنجاب کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر تے کرتے اٹک آگئے۔ سکھوں کی اٹک آمد اور کاروائیوں کا حال محمد نواز اعوان ایڈووکیٹ اپنی تصنیف ’’تاریخ سرزمین اٹک‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:۔
’’سکھ نہایت تیز رفتاری سے شمالی علاقوں کی جانب بڑھے جہاں کھٹڑوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔۱۷۶۸ ؁ء میں سکھ راولپنڈی تک پہنچ گئے۔‘‘ (تاریخ سرزمین اٹک صفحہ ۵۰)
’’سردار چتر سنگھ نے موقع دیکھتے ہی سرزمین اٹک کے علاقہ فتح جنگ پر حملہ کر کے قبضہ میں لے لیا۔‘‘(صفحہ ۵۰)
’’سہارنپور سے لے کر اٹک اور ملتان سے سندھ تک جبکہ کانگڑہ سے بھمبر تک سکھ مقبوضات ہونے کی وجہ سے سردار جامہ میں مٹ نہیں رہے تھے ۔ سرزمین اٹک کے زیادہ تر حصے پر پہلے ہی رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ کا قبضہ ہو چکا تھا۔۱۷۸۹ ؁ء میں مہا سنگھ کے مالیہ کی وصولی کی غرض سے پنڈی گھیب کے ملک امانت خان کو تلہ گنگ پنڈی گھیب کا علاقہ سات ہزار روپے سالانہ کے ٹھیکہ پر دیا جبکہ قصبہ مکھڈ کا مالیہ سکھ ملازمین وصول کرتے مگر گردونواح کا مالیہ خان مکھڈ لیتا تھا۔‘‘(صفحہ ۵۱)
’’سکھوں کے عہد میں قلعہ اٹک کے حاکم حکما سنگھ ، گورمکھ سنگھ ، سردھنا سنگھ ، دیوان سنگھ اور سربلند سنگھ رہے۔۱۸۱۳ ؁ء تا ۱۸۳۳ ؁ء سکھ حسن ابدال ، علاقہ چھچھ، چک سروالہ اور چک نلہ ( موجودہ تحصیل اٹک)کا مالیہ فصل کی صورت میں لیتے رہے۔ چوہدری مفراللہ آف موسیٰ کو سکھوں نے یہ علاقہ سات سال کے عرصہ کے لیے چوبیس ہزار روپیہ سالانہ پٹہ پر دیا۔‘‘ (صفحہ ۵۲۔۵۱)
یہ چند تاریخی واقعات اس لیئے نقل کیے ہیں کہ قارئین کے ذہن میں اس دور کے حالات کی سنگینی اچھی طرح واضح ہو جائے۔سکھوں کا دور انتہائی بدا منی کا دور تھا اور ان کے لٹیرے حکومتی سرپرستی میں جتھوں کی شکل میں لوٹ مار کرتے اور خوب مال کماتے۔ ان سکھوں کی لوٹ مار کا ہدف مسلمان تھے۔پنڈسلطانی چونکہ شروع سے ہی مسلمان آبادی رہی اور یہ اسی حوالے سے مشہور بھی رہا اس لیے یہ گاؤں بھی سکھوں کی لوٹ مار سے نہ بچ سکا۔
آج میں آپ کو پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کے دومیل میں چلے جانے اور گھوڑا دوڑا کر زمین حاصل کرنے کی اصل کہانی سنانے لگا ہوں اس کہانی کا تعلق بھی سکھوں کے دور اور ان کے مظالم سے جڑا ہوا ہے۔واقعات کچھ یوں ہیں کہ سکھوں کے دور میں باقی پنجاب کی طرح پنڈسلطانی میں بھی سکھوں نے لوٹ مار کی کوشش کی۔ مگر زیادہ تر ناکام رہے ۔ایک دفعہ جب وہ علاقہ نر ڑہ کی طرف سے آئے تو تعداد اور طاقت میں زیادہ ہونے کے باوجود ، وہ پنڈسلطانی سے مال لوٹنے میں تو ناکا م رہے مگر دونوں طرف سے لڑائی کی وجہ سے بہت سا جانی نقصان ہوا۔ پنڈسلطانی کے کچھ لوگ بھی مارے گئے اور سکھوں کابھی بہت سا جانی نقصان ہوا۔جاتے وقت سکھ اہلیانِ پنڈسلطانی کو دھمکی دے گئے کہ اب ہم باضابطہ آپ سے مقابلے کے لیے آئیں گے۔تیار رہنا!!
پنڈسلطانی کا علاقہ اس وقت ایک سٹیٹ کی شکل میں تھا ۔سکھوں کی دھمکی سے پنڈسلطانی کی سٹیٹ کا مالک بہت پریشان ہوا کیونکہ اسے سکھوں کی طاقت کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔سکھوں سے ملنے والی وارننگ کوئی معمولی بات نہ تھی لہٰذا پنڈسلطانی گاؤں کے کسی بڑے یا سٹیٹ کے مالک (نام اب تک معلوم نہ ہو سکا) نے پنڈسلطانی کے قریب ترین نئے آباد ہونے والے گاؤں دومیل کی مسلمان آبادی سے سکھوں کے مقابلے کے لیے مدد مانگی اور درخواست کی کی اس صورت میں پنڈسلطانی کو افرادی قوت دی جائے۔سکھوں کے عہد میں سکھوں کے خلاف کسی کی مدد کرنے کا فیصلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔لہٰذا اپنے جانی نقصان سے بچنے کے لیے اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے معذرت کر لی۔ لیکن دونوں گاؤں کے بڑوں کے درمیان بات چیت چلتی رہی۔آخر دومیل کی مسلمان آبادی اس بات کی قائل ہو گئی کہ سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا جائے گا۔ چونکہ ایسی صورت میں نقصان یقینی تھا لہٰذا پنڈسلطانی سٹیٹ کے مالک (یا کسی بڑے شخص)نے دومیل کی اس آبادی سے ، جو سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دے گی نقصان کی صورت میں یہ وعدہ کیا کہ آپ کو اتنی زمین دی جائے گی جس پر ایک دن گھوڑا چل سکے۔دونوں طرف سے اس وعدے پر بات پکی ہو گئی۔
آخر کار سکھوں نے لوٹ مار کی غرض سے بھی اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بھی پنڈسلطانی پر حملہ کر دیا ۔جہاں اہلیان پنڈسلطانی بڑی دلیری سے لڑے وہاں دومیل کے مسلمانوں نے بھی بھرپور انداز میں پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا۔باقاعدہ جنگ ہوئی اور پنڈسلطانی کے علاوہ دومیل کے بھی بہت سے لوگ مارے گئے ۔ تاہم سکھوں کویہاں سے بری طرح شکست ہوئی اور وہ یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر کبھی اس علاقے کا رخ نہ کیا۔
جب حالات معمول پر آئے تو اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے وعدے کے مطابق زمین کا مطالبہ کیا جو پنڈسلطانی والوں نے مان لیا اور طے ہوا کہ مقررہ دن کو معززین علاقہ کے سامنے گھوڑا ایک جگہ سے چلنا شروع کرے گا اور جہاں تک جا سکا وہ زمین دومیل والوں کو دے دی جائے گی ۔لہٰذا مقررہ دن کو بابا رسالدار خان کے گھر کے قریب سے گھوڑا چلایا گیا ۔حاجی اصغر والی گلی سے ہوتا ہوا پیر صاحبان کے کنوئیں سے نالہ سوکا پار گیا۔یہاں سے پُل سوکا (کوہاٹ روڈ) کے قریب مولانا ہاشم کے گھر کے مغرب کی طرف سے ہوتا ہوا مزمل خان کے گھر اور پھر بنیا مین کی بھٹی سے ہوتا اور نالہ دوتال کو کراس کرتا ہوا آڑا سے گزر کر اورنگ آباد کی سرحد تک پہنچ گیا ۔پھر اورنگ آباد کی سرحد کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف چلتا گیا اور ڈھوک ولیاں کے مغرب اور حویلی کے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا رنگلی کے قریب سے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا میرا کی طر ف آنے لگا۔نمل ریلوے سٹیشن کے قریب سے گزر کر گھوڑا راجے والوں کی جگہ سے ہوتا ہوا بابا غازی کی بن ( ڈھوک میرا ) کے قریب پہنچ گیا۔یہاں پنڈسلطانی والوں نے گھوڑا روکنے کو کہا۔ گھوڑا رک گیا۔دراصل یہاں پنڈسلطانی والوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر گھوڑا اسی رفتار سے چلتا گیا توپنڈسلطانی کا سارا میرا زمین کا علاقہ دومیل کو مل جائے گا۔علاوہ ازیں ابھی دن کے ختم ہونے میں بھی بہت سا وقت باقی تھا لہٰذا یہاں دومیل اور پنڈسلطانی کے معززین کا ایک جرگہ بیٹھا جس نے دومیل والوں سے درخواست کی کہ اب گھوڑا دومیل کی طرف نہ جائے بلکہ اس کا رخ محلہ ٹیہہ کی طرف موڑا جائے ورنہ ہمارا بہت سا علاقہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔دومیل والوں نے جرگہ کی یہ بات مان لی اور گھوڑے کا رخ تبدیل کر دیا گیا ۔جہاں یہ جرگہ بیٹھا تھا ، اب بھی اس جگہ کو ’’جرگہ مار ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ جگہ بابا غازی کی بن کے قریب ایک لڑی پر مشتمل ہے۔
دوبارہ جب گھوڑا چلا تو وہ عطر کوٹے والے کے گھر سے ہوتا ہوا ڈھوک دلہہ سے ہو کر نیچے کی طرف آنے لگا۔ بابا شیر دل کی زمین کے قریب سے ہوتا ، پٹال سے گزر کر پھر نالہ سوکا کی طرف آگیا یہاں سے پڑاہ (نزد پرانا تھانہ) کی طرف بابا گلاب کے گھر کے قریب اورپھر سردار شیر خان مرحوم کے کنوئیں سے گزرتا ہوا محلہ ٹیہہ پر بابا امیر کی بھٹی والی جگہ سے اوپر آبادی کی طرف آگیا ۔یہاں سے سیدھا مشرق کی طرف چلا ۔بابو ریاض کے گھر سے ہوتا ہوا محلہ ٹیہہ کے بلند ترین مقام (جہاں آج کل برتنوں والی بھٹی ہے) سے گزر کر دوبارہ اس جگہ پر آگیا جہاں سے صبح چلا تھا ۔یہ جگہ بابا رسالدار کے گھر کے بالکل ساتھ بتائی جاتی ہے ۔گھوڑے کے چلنے میں کچھ پابندیاں بھی تھیں۔ مثلاََ یہ کہ جہاں پنڈسلطانی کی حد ختم ہو جائے وہاں سے تو گھوڑے کا رخ اس کا مالک موڑ لے گا مگر جب گھوڑا پنڈسلطانی کی حد میں چل رہا ہو گا تو پھر گھوڑا آزاد ہو گا ، جس طر ف کو مرضی جائے۔جب گھوڑے نے اپنا سفر مکمل کر لیا تو وعدے کے مطابق وہ ساری زمین سکھوں کے خلاف جنگ میں امداد کرنے پر پنڈسلطانی والوں نے دومیل والوں کو دے دی۔ اس جگہ کی حد وہی ہے جہاں سے گھوڑا گزرا تھا۔جب دومیل والوں کو زمین مل گئی تو انہوں نے وہاں کھیتی باڑی شروع کی ، وہاں کچھ گھرانے محلہ ٹیہہ میں آکر آباد بھی ہو گئے ۔ان لوگوں کی زمینیں دومیل میں بھی ہیں اور دومیل کے کچھ اورلوگوں کی زمینیں محلہ ٹیہہ میں بھی ہیں ۔بعد میں جب مختلف گاؤں کی زمینوں کی تقسیم ہو ئی تویہ محلہ دومیل ہی کودیا گیا کیونکہ یہاں آباد لوگ دومیل کے تھے۔یہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یہ تھی پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کی زمین دومیل کو دیئے جانے کی کہانی جو اب تک کئی افسانوی رنگ بھی اختیا ر کر چکی ہے ۔مثلاََ ایک بات یہ کی جاتی ہے کہ یہ زمین پنڈسلطانی کے ایک بڑے شخص ( سٹیٹ کے مالک وغیرہ) نے دومیل کے اپنے داماد کو دی اور کہا کہ تم گھوڑے پر بیٹھ کر جہاں تک جاؤ گے وہ زمین تمھیں دے دی جائے گی ۔یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر زمین داماد کو دی جاتی تو اس کا مالک آج بھی ایک ہی خاندان ہوتا جبکہ سب جانتے ہیں کہ محلہ ٹیہہ کی زمین کے کئی مالک ہیں اور ان کے خاندان الگ الگ ہیں۔ لہٰذا یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ زمین جنگ میں امداد کرنے کے صلہ اور دومیل والوں کے جانی نقصان کی تلافی کی طور پر دی گئی تھی۔اس حوالے سے کچھ اور باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں ۔مثلاََ یہ کہ حملہ کرنے والے رنگلی سے تھے ۔اور وہ فصلوں کا نقصان کرتے ۔اور جن گاؤں سے مدد مانگی گئی ان میں مٹھیال اور بسال وغیرہ بھی شامل تھے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ باتیں درست نہیں ۔دومیل والوں سے مدد اس بنا پر بھی مانگی گئی تھی کہ اس سے کئی سال قبل دومیل پنڈسلطانی کا ہی حصہ تھا ۔بلکہ دومیل کا نام ہی پنڈسلطانی سے دومیل دو ر ہونے کی وجہ سے دومیل رکھا گیا۔جب دومیل آباد ہوا تواس کا کوئی نام نہ تھا اور پہچان کے لیے کہا جاتا کہ وہ گھر یا آبادی جو پنڈسلطانی سے دومیل دور ہے اس کی یہ بات ہے وغیرہ۔انگریز دور حکومت میں جب ریلوے لائن بچھائی گئی تو ریلوے سٹیشن دومیل کا نام ’’پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن ‘‘ تھا ۔لہٰذا اس تعلق کی بنا پر صرف دومیل سے مدد طلب کرنے کی بات درست معلو م ہوتی ہے ۔باقی نہیں۔
آج شاید اہلیانِ ٹیہہ اس حوالے سے پریشان بھی ہیں کہ انہیں دومیل کی آبادی ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی ہیں ۔یونین کونسل تھٹہ ہونے کی وجہ سے لو گوں کو وہاں جانا پڑتا ہے ۔حلقہ پٹوار اور الیکشن کے حوالے سے اندراج بھی اسی طرح کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔اگر اہلیانِ ٹیہہ میری رائے پر عمل کریں تو وہ پھر سے پنڈسلطانی میں ہی شامل ہو جائیں۔
آپ کو گھوڑے والی یہ کہانی کیسی لگی ۔ضرور بتائیے گا!!
والسلام