Shehr-e-Iqbal ma chand roz

شہرِ اقبال ؒ میں چند روز

میں نے جب ۲۰۱۰ء ؁ میں ایم فل اقبالیات میں داخلہ لیا اور اقبالؒ کے بارے میں کچھ جاننے کا موقع ملا تو دل میں اس خیال نے بھی شدت اختیار کی کہ اقبالؒ کے پیدائشی شہر(سیالکوٹ) ان کے آبائی گھر اور ان اداروں میں جاؤں جہاں اقبال ؒ نے اپنا بچپن اور جوانی گزاری اور ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔مگر باوجود کوشش کے ایسا نہ ہو سکا۔
میں ۲۰۰۶ء ؁ سے ہر سال کسی حاجی کیمپ میں حج پر جانے والے حجاج کرام کی خدمت بجا لاتا ہوں یہ میرے لیے ایک بڑی سعادت ہے۔اس دفعہ جب مجھے حج سروس کا لیٹر ملا تو یہ میرے لیے ایک اور خوشی بھی لایا کہ میری اس دفعہ حج سروس حاجی کیمپ سیالکوٹ میں تھی۔یہ سروس ۴ سے ۱۴ ستمبر ۲۰۱۵ء ؁ کے لیے تھی چنانچہ میں ۳ ستمبر کی شام حاجی کیمپ سیالکوٹ پہنچ گیا۔حاجی کیمپ سیالکوٹ، سیالکوٹ شہر سے ۱۵ کلومیٹر پہلے سمبڑیال شہر میں گورنمنٹ بوائز اسلامیہ کالج سمبڑیال میں بنایا جاتا ہے۔یہاں سے سیالکوٹ ایئرپورٹ ۶ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور حجاج کو آنے جانے میں سہولت رہتی ہے۔
سمبڑیال ،سیالکوٹ کی تحصیل بھی ہے اور سیالکوٹ کا ایک بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔سیالکوٹ کھیلوں کے سامان اور جراحی کے سامان کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اور ان چیزوں کے کارخانے زیادہ تر سمبڑیال میں ہی ہیں۔اس کے علاوہ میرے لیے سمڑیال کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ تھی کہ علامہ اقبالؒ کی والدہ محترمہ حافظہ امام بی بی کا تعلق بھی سمبڑیال سے تھا۔
حاجی کیمپ میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی چنانچہ میری کوشش ہوتی کہ بقیہ وقت علاقہ کی سیر وتفریح میں گزارا جائے۔حاجی کیمپ کے ساتھ ہی سیالکوٹ ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کے دفاتر اور کارگو سروس ہے۔حاجی کیمپ کے ساتھ ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کی طرف سے ایک خوبصورت چوک بنایا گیا ہے ۔جہاں نہایت خوبصورت انداز میں لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔اس سے ذرا آگے دریائے چناب سے نکلنے والی نہریں اپر چناب اور لوئر چناب ہیں جو سمبڑیال سے سیالکوٹ جاتے ہوئے راستے میں آتی ہیں۔ایک نہر حاجی کیمپ کے بالکل قریب تھی ہم شام کو اکثر وہاں جاتے اور شدید گرمی میں نہر کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے۔
ایک دن جب میری ڈیوٹی نہ تھی، میں نے سیالکوٹ شہر جانے اور علامہ اقبالؒ سے متعلقہ جگہیں اور چیزیں دیکھنے کا پروگرام بنایا۔میرے ساتھ گجرات کے غلام یثرب ڈیوٹی پر تھے، مقامی آدمی خیال کرتے ہوئے انہیں ساتھ لیا اور ان کے موٹر سائیکل پر سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔

سمبڑیال سے سیالکوٹ جاتے ہوئے ، پہلی نہر کراس کرتے ہی کھیلوں اور جراحی کے سامان کے کارخانے شروع ہو جاتے ہیں جو سیالکوٹ جانے تک جاری رہتے ہیں۔یہاں کچھ کارخانے لیدر کے بھی ہیں۔دوسری نہرسے ذرا پہلے ، جہاں سیالکوٹ قریب ہوتا ہے ، وہاں ڈاکٹر دانی حفصہ کنول (اسسٹنٹ کمشنر سمبڑیال) کی طرف سے ایک خوبصورت بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر علامہ اقبالؒ کی تصویر بھی ہے۔ اس بورڈ پر گولڈن رنگ کیا گیا ہے جو سورج کی روشنی سے خوب چمکتاہے۔
ہم لاری اڈہ سیالکوٹ فاطمہ جناح پارک سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے مرے کالج سیالکوٹ پہنچے ۔مرے کالج سیالکوٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہاں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا تھا مگر یہ بات درست نہیں ہے ۔اقبال ؒ کا مرے کالج سیالکوٹ سے کوئی بھی تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں لکھائے جانے والے علامہ اقبالؒ پر مضمون اب بھی یہی لکھایا جاتا ہے کہ اقبالؒ نے ایف اے گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ سے کیا۔مرے کالج سیالکوٹ میں ہم پرنسپل پروفیسر جاوید اختر باللہ سے ملے اور درخواست کی کہ ہمیں کالج دیکھنے کی اجازت دی جائے۔پرنسپل صاحب کی اجازت سے ہم نے کالج دیکھا، بہت بڑا کالج ہے۔علامہ اقبالؒ کے نام سے موسوم لائبریری کافی بڑی اور قدیم ہے اور اس کا ایک گوشہ خاص طورپر علامہ اقبالؒ کے لیے مخصوص ہے۔ کالج کے ایک ہال کو علامہ اقبال ؒ کے استاد مولوی میر حسن ؒ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔جہاں ایک طرف علامہ اقبال ؒ دوسری طر ف میر حسن ؒ کی تصویر آویزاں تھی۔وہاں کے طلباء اور اساتذہ سے مختصر سی بات چیت بھی ہوئی مگر اقبالؒ کا کوئی بھی تعلق ثابت نہ ہوا۔اب ہماری اگلی منزل اقبالؒ کا ابتدائی تعلیمی ادارہ اسکاچ مشن ہائی سکول تھا۔
مرے کالج سیالکوٹ سے نکل کر سورج پُور کے علاقے میں سینٹ انتھینی سکول کے علاقہ میں مختلف لوگوں سے پوچھا کہ اسکاچ مشن سکول ، جہاں علامہ اقبالؒ پڑھتے رہے ہیں، کس طرف ہے؟بہت سارے لوگوں کا جواب نفی میں پا کر مجھے بڑا افسوس ہوا۔کچھ لوگوں نے تو یہی کہا کہ ’’آپ جس طرف سے آرہے ہیں ۔اس طرف مرے کالج ہے، اقبال ؒ یہیں پڑھتارہاہے۔‘‘میں سوچنے لگا کہ اگر خود اقبالؒ کے شہر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ معلومات ہیں تو باقی ملک کی حالت کیا ہوگی۔ہم راستہ پوچھتے پوچھتے عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے گزرے تو وہاں ایک شخص سے اقبالؒ کے سکول کا راستہ پوچھا تو اس نے جواب تو نفی میں ہی دیا لیکن ہمیں کہا کہ آئیں میں آپ کو ایک شخص سے ملاتاہوں جو آپ کو تفصیل سے بتائے گا۔ہم اس کے ساتھ چل پڑے ۔اس نے ہمیں ایک شاعر سے ملوایا ۔وہ شاعر عیسائی تھا اس کا نام فرانسس سائل تھا ۔اس سے کافی گپ شپ ہوئی ۔فرانسس سائل کی دو کتب منظر عام پر آچکی ہیں ۔اردو غزلوں کا مجموعہ (رُت بدلتی ہے تمہیں سوچیں تو)اور پنجابی غزلوں کا مجموعہ (دیواں دردادھارے کِنوں)۔فرانسس سائل نے مجھے اور غلام یثرب کو پنجابی غزلوں کا مجموعہ بطور تحفہ دیااور ہم نے اقبالؒ کے سکول کا پتا پوچھ کر وہاں سے اجازت چاہی۔اور علامہ اقبال ؒ کے ابتدائی تعلیمی ادارے اسکاچ مشن ہائی سکول پہنچ گئے۔
اسکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ شہر کے علاقے پرانی گندم منڈی میں واقع ہے اور ۱۹۶۹ ؁ء سے اس کا نام گورنمنٹ کرسچین ہائی سکول سیالکوٹ ہے ۔سکول کے نام کی تبدیلی کی وجہ اردو اور انگریزی میں سکول کے گیٹ کے دونوں طرف لکھی گئی ہے۔۱۹۷۲ ؁ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو قومی تحویل میں لیا تو یہ ادارہ بھی اسی زمرے میں آگیا۔
یہ سکول ۱۸۵۱ ؁ء میں قائم ہواتھا۔۱۸۸۹ ؁ء میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔علامہ اقبال ؒ ۱۸۸۱ ؁ء میں اس سکول میں داخل ہوئے۔۱۸۹۱ ؁ء میں مڈل ، ۱۸۹۳ ؁ء میں میٹرک اور ۱۸۹۵ ؁ء میں ایف اے کا امتحان اسی ادارے سے پاس کیا۔۱۹۰۹ ؁ء میں اس ادارے کی ایف اے کی کلاسز مرے کالج سیالکوٹ منتقل کی گئیں اور یہ صرف ہائی سکول رہ گیا۔
گورنمنٹ کرسچین ہائی سکول (اسکاچ مشن ہائی سکول ) علامہ اقبالؒ کے گھر سے تقریباََ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔سکول میں وہ عمارت ابھی موجود ہے جہاں اقبالؒ نے پڑھاتھا۔علامہ اقبالؒ نے جس کمرے میں دسویں جماعت پڑھی اُسے ہم نے خاص طور پر دیکھا۔سکول کا ہال بھی دیکھا جہاں اقبالؒ کی تصاویر اور اشعار لکھے ہوئے تھے۔دراصل علامہ اقبال ؒ نے ایف اے اسی سکول سے کیا تھا ۔ان کے ایف اے کے سرٹیفکیٹ پر اسکاچ مشن سکول سیالکوٹ کا نام واضح انداز میں لکھا ہوا ہے۔سکول میں علامہ اقبالؒ کے مڈل ، میٹرک اور ایف اے کی اسناد کی فوٹو کاپیاں بڑی خوبصورتی سے آویزاں تھیں۔علامہ اقبال ؒ کی اس وقت تک دستیاب سب سے پرانی تصویر بھی سکول میں آویزاں تھی۔
ٍ سکول کے پرنسپل محمد انور باجوہ کسی کام سے گئے ہوئے تھے ہماری ملاقات محمد ادریس EST سے ہوئی انہوں نے نہایت شفقت فرمائی۔ہماری تواضع بھی کی اور ہمیں علامہ اقبالؒ کا سکول بھی دکھایا۔علامہ اقبال ؒ کے زمانے میں سکول میں پانی کا ذریعہ ایک کنواں تھا۔ جسے بعد میں بھر دیا گیا اور اسی گولائی میں اینٹیں لگا کر اس کے اندر دھریک کا پودا لگایا گیاجو اب کافی بڑا ہو چکا تھا۔بچے اپنے بستے اس تھانولے پر رکھ کر بیٹھے تھے۔سکول میں DCO سیالکوٹ کی آمد تھی اور زیادہ تر بچے اور اساتذہ صفائی میں لگے ہوئے تھے۔

محمد ادریس EST نے بتایا کہ اس وقت سکول میں تقریباََ ۱۴۰۰ طلباء زیرتعلیم ہیں ۔ان طلباء میں زیادہ تر مسلمان ہیں لیکن ہندو اور عیسائی بچے بھی ہیں۔ گزشتہ سال میٹرک کے امتحان میں ایک ہندو بچے ’’سجن‘‘ نے سکول میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔اساتذہ کی تعداد ۴۳ ہے جن میں ایک غیر مسلم( عیسائی )ہے باقی سب مسلمان اساتذہ ہیں۔
ہم نے تقریباََ ایک گھنٹہ علامہ اقبالؒ کے سکول میں گزارا۔ باوجود گرم موسم کے، ہمیں بہت اچھا لگا اور دل کو بڑا سکون ملا کہ ہم بھی وہاں بیٹھے ہیں جہاں کبھی علامہ اقبالؒ بیٹھے ہوں گے ۔دل پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ ایک بجے سکول میں چھٹی ہوئی اور بچے اپنے اپنے بستے اٹھا کر جانے لگے تو میں سوچ رہا تھا کہ کبھی اقبالؒ بھی اسی طرح اپنا بستہ اٹھا کر سکول سے واپس جاتا ہو گا۔ہم نے بھی اجازت لی اور علامہ اقبال ؒ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
علامہ اقبالؒ کا بچپن کا گھر سیالکوٹ کے کشمیری محلہ میں واقع ہے۔چونکہ اقبالؒ کے جد امجد ۱۷۵۲ ؁ء میں کشمیر سے ہجرت کر کے ہی سیالکوٹ آئے تھے لہٰذا یہاں زیادہ تر اقبالؒ کے برادری کے لوگ آباد تھے لیکن اب ان کا کوئی قریبی رشتہ دار یہاں آباد نہیں ہے۔ اقبالؒ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کی اولاد آج کل لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔(تحریر کے وقت ڈاکٹر جاوید اقبال حیات تھے اب وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں)
علامہ اقبالؒ کے دادا شیخ محمد رفیق نے ایک منزلہ مکان ۱۵۰ روپے کے عوض ۱۸۶۱ ؁ء میں خریدا تھا۔اس وقت یہ مکان ، ایک ڈیوڑھی، ایک دالان، دو کوٹھڑیوں اور ایک چھوٹے صحن پر مشتمل تھا۔ اس مکان کی ڈیوڑھی سے منسلکہ کوٹھڑی میں علامہ اقبالؒ کی پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ ؁ء بروز جمعہ ہوئی۔ ۸۹۲ٍ۱ ؁ء میں ملحقہ دو منزلہ مکان خرید کر اس میں شامل کر دیا گیا۔اور ۱۸۹۵ ؁ء میں بازار چوڑیگراں کی جانب واقع دو دکانیں خرید کر اس میں شامل کر دی گئیں۔۱۹۱۰ ؁ء میں علامہ اقبالؒ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اس مکان کو ازسر نو تعمیر کروایا اور اب اس کی تین منزلیں ہیں۔دوسری منزل میں ایک کمرہ والدہ اقبال(امام بی بی)کے لیے مخصوص تھا ۔جس میں وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتی تھیں۔اب اس مکان کا کل رقبہ تقریباََ ۹ مرلے ہے۔ بازار کی طرف جو دو دکانیں تھیں انہیں اب ریڈنگ روم میں تبدیل کر دیا گیاہے۔ اس عمارت میں لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے ۔کئی جگہ سیڑھیاں بھی لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔حکومتِ پاکستان نے اس گھر کو خرید کر ۱۹۷۱ ؁ء میں محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا ہے ۔اس مکان کے اندر جا بجا علامہ اقبال ؒ ، ان کے والد ، والدہ ، بھائی اور اساتذہ وغیرہ کی تصاویر لگی ہیں۔ایک مہمان خانہ بھی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے پیدائش والے کمرے کو خاص طور پر نمایاں کیا گیاہے ۔وہاں ایک (شیر خواربچے کا) چھوٹا سا پنگھوڑا بھی پڑا ہے۔باقی کمروں میں علامہ اقبالؒ کے زیر استعمال رہنے والی چند اشیاء رکھی گئی ہیں۔کچھ اشیاء کا تعلق علامہ اقبال ؒ سے نہیں بلکہ صرف مکان سے ہے۔یعنی وہ اشیاء اس مکان کے سابق مکینوں کی ہیں۔اس وقت جو اشیاء وہاں رکھی تھیں ان میں پنگھوڑا ، کرسی ، قلم دوات ، حقہ ، سالن گرم رکھنے والا ڈونگہ ، لکڑی کے صندوق ، لکڑی والی الماریاں ، کتابیں اور پلنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ہم تقریباََ ایک گھنٹہ اقبالؒ کے گھر میں گھومتے رہے۔ وہاں تصاویر بنوائیں ۔اور سیر کے لیے آنے والے بے شمار لوگوں سے گپ شپ بھی کی ۔محکمہ آثار قدیمہ کے انچارج سے بھی ملے، انہوں نے بڑی شفقت فرمائی اور کافی مفید معلومات فراہم کیں۔نیز وہاں تصاویر بنوانے کے لیے ان سے خصوصی اجازت بھی لی۔آخر پر ویز یٹرز(visitors) کے لیے رکھی گئی کتاب میں اپنے تاثرات لکھے اور اقبالؒ کے گھر سے باہر نکل آئے۔
اقبالؒ کے گھر کے باہر ایک ریڑھی والا نان چنے بیچ رہا تھا۔ہمیں بہت سخت بھوک لگی تھی۔نان چنے کا آرڈر دے کر ہم ساتھ والی ایک دکان میں بیٹھ گئے اس دکان پر شامی کباب اور بوتلیں وغیرہ تھیں۔یہ دکاندار بڑا زبردست آدمی تھا۔دنیا کے بیس سے زائد ممالک میں کاروبار کر چکا تھا۔ بہت معلوماتی گپ شپ بھی ہوئی اور ہم نے کھانا بھی اس کی دکان میں بیٹھ کر کھایا۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو اقبال ؒ کے گھر کے بالکل سامنے واقع مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے گئے۔ مسجد کا پورا نام ’’جامع مسجد جہانگیری و دارالعلوم ختم نبوت رجسٹرڈ‘‘ تھا۔نماز ظہر ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے ۔۲۰ کے قریب بچے قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔دل میں خیال پیدا ہوا کہ مدرس صاحب سے بات چیت کی جائے اور پوچھا جائے کہ کیا یہ مسجد اقبالؒ کے زمانے میں موجود تھی؟؟ مگر مدرس کا بچوں سے آمرانہ رویہ دیکھ کر ہمت نہ ہوئی ۔مدرس صاحب سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، ایک مہمان بھی ان کے پاس تھے۔ بچے بڑے شوق سے انہیں ہاتھ ملانے آتے مگر وہ بڑے پُرغرور انداز میں ہاتھ ملاتے اور جیسے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ذرا بھی نہ ہلتے۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم بھی مسجد سے اٹھے اور باہر نکل آئے۔
اب ہماری اگلی منزل علامہ اقبالؒ کا آبائی قبرستان تھا، جہاں ان کے والدین کی قبریں ہیں۔اسے ’’امام صاحب والاقبرستان‘‘کہتے ہیں اور یہ اقبال ؒ کے گھر سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ یہ نہایت پرانا قبرستان ہے۔ اس کی زمین بھی ہموار نہیں ہے۔ بہت بڑا قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں علامہ اقبالؒ کی والدہ ( امام بی بی) والد ( شیخ نورمحمد) اور علامہ اقبالؒ کی دختر معراج بیگم(وفات ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۵ء ؁) کی قبریں ایک ساتھ ہیں۔ان تینوں قبروں کے اوپر حکومت کی طرف سے ایک شیڈ بنا دیا گیاہے۔ نیز قبروں کو پختہ بھی کیا گیا ہے۔
اس قبرستان میں بے شمار چرسی ، پوڈری اور مانگنے والے فقیر بیٹھے تھے۔بہت سے لوگ مختلف قبروں کو اپنے اپنے پیروں کی قبریں بتا رہے تھے۔ان پر دیے جلا رہے تھے اور نذرو نیاز کا سلسلہ شروع کیے ہوئے تھے۔ہم نے اقبالؒ کے والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور وہاں سے چل دیے۔اب شام قریب تھی لہٰذا واپس حاجی کیمپ آگئے۔اس کے علاوہ پھر ایک دن سیالکوٹ آئے لیکن اب ہمارا مقصد سیالکوٹ شہر گھومنا اور یہاں سے کھیلوں کا سامان خریدنا تھا۔
ایک دن وقت نکال کر میں ، ڈاکٹر محمد منیر، قاضی محمود الحسن اور محمد اعجاز وزیر آباد گئے ۔یہاں آنے کے دو مقاصد تھے ۔ اول یہاں کٹلری کا سامان تیار ہونے والے کارخانے اور مارکیٹ دیکھنا او ر دوم تحریک آزادی کے رہنما مولانا ظفر علی خان کی قبر پر حاضری دینا۔سب سے پہلے ہم نے وزیر آباد شہر میں کٹلری کے سامان کے کارخانے اور دکانیں دیکھیں۔بہت بڑی مارکیٹ کٹلری کے سامان مثلاََ چھریاں، چاقو، قینچیاں ، تلواریں ، آؒ لات جراحی وغیرہ سے بھری پڑی تھی۔ہم نے بھی ضرورت کی کچھ اشیاء خریدیں۔اور مولانا ظفر علی خان کی قبر کی طرف چل پڑے۔
مولانا ظفر علی خان کی قبر وزیر آباد شہر سے سیالکوٹ روڈ پر تین کلومیٹر کے فاصلے پر کرم آباد میں ہے۔ کرم آباد مولانا ظفر علی خان کے دادا ( کرم الٰہی) کے نام پر آباد گاؤں ہے۔مولانا ظفر علی خان ، علامہ اقبال ؒ کے ہم عصر تھے۔آپ ۱۸۷۳ ؁ء میں کرم آباد میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۴ ؁ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔نواب محسن الملک کے سیکرٹری رہے۔آپ کے والد مولوی سراج الدین لاہور سے ’’ زمیندار‘‘ اخبار نکال رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مولانا ظفر علی خان نے اس اخبار کو نہایت احسن طریقے سے چلایا ۔آپ ایک اچھے صحافی اور بہترین مقرر تھے۔ تحریک آزادی کے حوالے سے بے باک صحافت اور شعلہ بیاں تقریروں کی بدولت کئی دفعہ انگریزنے آپ کو قید کیا۔آپ کے اخبار کو بھی بند کیا گیا ۔کیمبل پور( اٹک) میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرنے پر آپ کو ۵ سال قید بھی ہوئی تھی۔ علامہ اقبال ؒ آپ سے بے حد متاثر تھے ۔انہوں نے مولانا کو ایک غیر معمولی دل و دماغ کا آدمی قرار دیا تھا ۔اور ان کے قلم کی روانی کو دنیا کے عظیم مجاہدین کی تلواروں کی روانی کے برابر قرار دیا تھا ۔ مولانا ظفر علی خان ۱۹۵۶ ؁ء میں فوت ہوئے ۔
ہم مغرب کے وقت مولانا ظفر علی خان کے مزار پر پہنچے۔مزار مین سیالکوٹ روڈ پر ہے۔مزارکے ساتھ ہی مولانا ظفر علی خان کی بنوائی ہوئی خوبصورت مسجد بھی ہے۔ جس کے سڑک کی جانب مولانا ظفر علی خان کا یہ مشہور زمانہ شعر لکھا ہوا ہے جسے لوگ علامہ اقبالؒ کا شعر کہتے ہیں:۔
؂ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کے
ہم نے مغرب کی نماز اسی مسجد میں پڑھی اور مولانا کے محلے داروں سے بات چیت بھی کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ مولانا ظفر علی خان بہت بڑے زمیندار تھے ۔ کرم آباد پورے کا پورا انہی کا تھا ۔ ان کے پوتے پوتیوں کی کوٹھیا ں بھی قریب ہی تھیں لوگوں نے مولانا ظفر علی خان کے تحریک آزادی کے حوالے سے بے شمار کارنامے بڑے فخر سے سنائے ۔ ہم نے مزار پر فاتحہ پڑھی اور واپس سمبڑیال آگئے۔
دس دن گزرنے میں دیر کہاں لگتی ہے۔ یہی صورتحال ہماری ڈیوٹی کی تھی ۔سیالکوٹ حاجی کیمپ میں ڈیوٹی کابہت مزا آیا ۔ہمارے وفد لیڈر اور کوآرڈینیٹر جنا ب غلام حیدر قمر(فیصل آباد) نہایت معقول آدمی تھے۔ حاجی صاحبان کی جی بھر کر خدمت کی اور ان کی ڈھیروں دعائیں لیں۔ ڈیوٹی کے آخری دن ایک پروقار تقریب میں ہمیں الوداع کہا گیا اور شیلڈز اور سر ٹیفکیٹس دیئے گئے۔سب دوست ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اورپھھر اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہو گئے ۔
آپ کو ’’شہر اقبال ؒ میں چند روز ‘‘ کالم کیسا لگا؟؟
ضرور بتائیے گا۔۔۔!
والسلام

پھر ملیں گے!

pic4 pic3 pic2 pic1

pic7 pic5 pic6

[custom-button

One thought on “Shehr-e-Iqbal ma chand roz

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*