Shehr-e-Iqbal ma chand roz

شہرِ اقبال ؒ میں چند روز

میں نے جب ۲۰۱۰ء ؁ میں ایم فل اقبالیات میں داخلہ لیا اور اقبالؒ کے بارے میں کچھ جاننے کا موقع ملا تو دل میں اس خیال نے بھی شدت اختیار کی کہ اقبالؒ کے پیدائشی شہر(سیالکوٹ) ان کے آبائی گھر اور ان اداروں میں جاؤں جہاں اقبال ؒ نے اپنا بچپن اور جوانی گزاری اور ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔مگر باوجود کوشش کے ایسا نہ ہو سکا۔
میں ۲۰۰۶ء ؁ سے ہر سال کسی حاجی کیمپ میں حج پر جانے والے حجاج کرام کی خدمت بجا لاتا ہوں یہ میرے لیے ایک بڑی سعادت ہے۔اس دفعہ جب مجھے حج سروس کا لیٹر ملا تو یہ میرے لیے ایک اور خوشی بھی لایا کہ میری اس دفعہ حج سروس حاجی کیمپ سیالکوٹ میں تھی۔یہ سروس ۴ سے ۱۴ ستمبر ۲۰۱۵ء ؁ کے لیے تھی چنانچہ میں ۳ ستمبر کی شام حاجی کیمپ سیالکوٹ پہنچ گیا۔حاجی کیمپ سیالکوٹ، سیالکوٹ شہر سے ۱۵ کلومیٹر پہلے سمبڑیال شہر میں گورنمنٹ بوائز اسلامیہ کالج سمبڑیال میں بنایا جاتا ہے۔یہاں سے سیالکوٹ ایئرپورٹ ۶ کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور حجاج کو آنے جانے میں سہولت رہتی ہے۔
سمبڑیال ،سیالکوٹ کی تحصیل بھی ہے اور سیالکوٹ کا ایک بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔سیالکوٹ کھیلوں کے سامان اور جراحی کے سامان کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے اور ان چیزوں کے کارخانے زیادہ تر سمبڑیال میں ہی ہیں۔اس کے علاوہ میرے لیے سمڑیال کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ تھی کہ علامہ اقبالؒ کی والدہ محترمہ حافظہ امام بی بی کا تعلق بھی سمبڑیال سے تھا۔
حاجی کیمپ میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی چنانچہ میری کوشش ہوتی کہ بقیہ وقت علاقہ کی سیر وتفریح میں گزارا جائے۔حاجی کیمپ کے ساتھ ہی سیالکوٹ ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کے دفاتر اور کارگو سروس ہے۔حاجی کیمپ کے ساتھ ڈرائی پورٹ ٹرسٹ کی طرف سے ایک خوبصورت چوک بنایا گیا ہے ۔جہاں نہایت خوبصورت انداز میں لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا ہوا ہے۔اس سے ذرا آگے دریائے چناب سے نکلنے والی نہریں اپر چناب اور لوئر چناب ہیں جو سمبڑیال سے سیالکوٹ جاتے ہوئے راستے میں آتی ہیں۔ایک نہر حاجی کیمپ کے بالکل قریب تھی ہم شام کو اکثر وہاں جاتے اور شدید گرمی میں نہر کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے۔
ایک دن جب میری ڈیوٹی نہ تھی، میں نے سیالکوٹ شہر جانے اور علامہ اقبالؒ سے متعلقہ جگہیں اور چیزیں دیکھنے کا پروگرام بنایا۔میرے ساتھ گجرات کے غلام یثرب ڈیوٹی پر تھے، مقامی آدمی خیال کرتے ہوئے انہیں ساتھ لیا اور ان کے موٹر سائیکل پر سیالکوٹ روانہ ہو گئے۔

سمبڑیال سے سیالکوٹ جاتے ہوئے ، پہلی نہر کراس کرتے ہی کھیلوں اور جراحی کے سامان کے کارخانے شروع ہو جاتے ہیں جو سیالکوٹ جانے تک جاری رہتے ہیں۔یہاں کچھ کارخانے لیدر کے بھی ہیں۔دوسری نہرسے ذرا پہلے ، جہاں سیالکوٹ قریب ہوتا ہے ، وہاں ڈاکٹر دانی حفصہ کنول (اسسٹنٹ کمشنر سمبڑیال) کی طرف سے ایک خوبصورت بورڈ نصب کیا گیا ہے جس پر علامہ اقبالؒ کی تصویر بھی ہے۔ اس بورڈ پر گولڈن رنگ کیا گیا ہے جو سورج کی روشنی سے خوب چمکتاہے۔
ہم لاری اڈہ سیالکوٹ فاطمہ جناح پارک سے ہوتے ہوئے سب سے پہلے مرے کالج سیالکوٹ پہنچے ۔مرے کالج سیالکوٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہاں سے ایف اے کا امتحان پاس کیا تھا مگر یہ بات درست نہیں ہے ۔اقبال ؒ کا مرے کالج سیالکوٹ سے کوئی بھی تعلق ثابت نہیں ہو سکا ہے۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں لکھائے جانے والے علامہ اقبالؒ پر مضمون اب بھی یہی لکھایا جاتا ہے کہ اقبالؒ نے ایف اے گورنمنٹ مرے کالج سیالکوٹ سے کیا۔مرے کالج سیالکوٹ میں ہم پرنسپل پروفیسر جاوید اختر باللہ سے ملے اور درخواست کی کہ ہمیں کالج دیکھنے کی اجازت دی جائے۔پرنسپل صاحب کی اجازت سے ہم نے کالج دیکھا، بہت بڑا کالج ہے۔علامہ اقبالؒ کے نام سے موسوم لائبریری کافی بڑی اور قدیم ہے اور اس کا ایک گوشہ خاص طورپر علامہ اقبالؒ کے لیے مخصوص ہے۔ کالج کے ایک ہال کو علامہ اقبال ؒ کے استاد مولوی میر حسن ؒ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔جہاں ایک طرف علامہ اقبال ؒ دوسری طر ف میر حسن ؒ کی تصویر آویزاں تھی۔وہاں کے طلباء اور اساتذہ سے مختصر سی بات چیت بھی ہوئی مگر اقبالؒ کا کوئی بھی تعلق ثابت نہ ہوا۔اب ہماری اگلی منزل اقبالؒ کا ابتدائی تعلیمی ادارہ اسکاچ مشن ہائی سکول تھا۔
مرے کالج سیالکوٹ سے نکل کر سورج پُور کے علاقے میں سینٹ انتھینی سکول کے علاقہ میں مختلف لوگوں سے پوچھا کہ اسکاچ مشن سکول ، جہاں علامہ اقبالؒ پڑھتے رہے ہیں، کس طرف ہے؟بہت سارے لوگوں کا جواب نفی میں پا کر مجھے بڑا افسوس ہوا۔کچھ لوگوں نے تو یہی کہا کہ ’’آپ جس طرف سے آرہے ہیں ۔اس طرف مرے کالج ہے، اقبال ؒ یہیں پڑھتارہاہے۔‘‘میں سوچنے لگا کہ اگر خود اقبالؒ کے شہر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ معلومات ہیں تو باقی ملک کی حالت کیا ہوگی۔ہم راستہ پوچھتے پوچھتے عیسائیوں کے ایک گرجا گھر کے پاس سے گزرے تو وہاں ایک شخص سے اقبالؒ کے سکول کا راستہ پوچھا تو اس نے جواب تو نفی میں ہی دیا لیکن ہمیں کہا کہ آئیں میں آپ کو ایک شخص سے ملاتاہوں جو آپ کو تفصیل سے بتائے گا۔ہم اس کے ساتھ چل پڑے ۔اس نے ہمیں ایک شاعر سے ملوایا ۔وہ شاعر عیسائی تھا اس کا نام فرانسس سائل تھا ۔اس سے کافی گپ شپ ہوئی ۔فرانسس سائل کی دو کتب منظر عام پر آچکی ہیں ۔اردو غزلوں کا مجموعہ (رُت بدلتی ہے تمہیں سوچیں تو)اور پنجابی غزلوں کا مجموعہ (دیواں دردادھارے کِنوں)۔فرانسس سائل نے مجھے اور غلام یثرب کو پنجابی غزلوں کا مجموعہ بطور تحفہ دیااور ہم نے اقبالؒ کے سکول کا پتا پوچھ کر وہاں سے اجازت چاہی۔اور علامہ اقبال ؒ کے ابتدائی تعلیمی ادارے اسکاچ مشن ہائی سکول پہنچ گئے۔
اسکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ شہر کے علاقے پرانی گندم منڈی میں واقع ہے اور ۱۹۶۹ ؁ء سے اس کا نام گورنمنٹ کرسچین ہائی سکول سیالکوٹ ہے ۔سکول کے نام کی تبدیلی کی وجہ اردو اور انگریزی میں سکول کے گیٹ کے دونوں طرف لکھی گئی ہے۔۱۹۷۲ ؁ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پرائیویٹ اداروں کو قومی تحویل میں لیا تو یہ ادارہ بھی اسی زمرے میں آگیا۔
یہ سکول ۱۸۵۱ ؁ء میں قائم ہواتھا۔۱۸۸۹ ؁ء میں اسے کالج کا درجہ دے دیا گیا۔علامہ اقبال ؒ ۱۸۸۱ ؁ء میں اس سکول میں داخل ہوئے۔۱۸۹۱ ؁ء میں مڈل ، ۱۸۹۳ ؁ء میں میٹرک اور ۱۸۹۵ ؁ء میں ایف اے کا امتحان اسی ادارے سے پاس کیا۔۱۹۰۹ ؁ء میں اس ادارے کی ایف اے کی کلاسز مرے کالج سیالکوٹ منتقل کی گئیں اور یہ صرف ہائی سکول رہ گیا۔
گورنمنٹ کرسچین ہائی سکول (اسکاچ مشن ہائی سکول ) علامہ اقبالؒ کے گھر سے تقریباََ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔سکول میں وہ عمارت ابھی موجود ہے جہاں اقبالؒ نے پڑھاتھا۔علامہ اقبالؒ نے جس کمرے میں دسویں جماعت پڑھی اُسے ہم نے خاص طور پر دیکھا۔سکول کا ہال بھی دیکھا جہاں اقبالؒ کی تصاویر اور اشعار لکھے ہوئے تھے۔دراصل علامہ اقبال ؒ نے ایف اے اسی سکول سے کیا تھا ۔ان کے ایف اے کے سرٹیفکیٹ پر اسکاچ مشن سکول سیالکوٹ کا نام واضح انداز میں لکھا ہوا ہے۔سکول میں علامہ اقبالؒ کے مڈل ، میٹرک اور ایف اے کی اسناد کی فوٹو کاپیاں بڑی خوبصورتی سے آویزاں تھیں۔علامہ اقبال ؒ کی اس وقت تک دستیاب سب سے پرانی تصویر بھی سکول میں آویزاں تھی۔
ٍ سکول کے پرنسپل محمد انور باجوہ کسی کام سے گئے ہوئے تھے ہماری ملاقات محمد ادریس EST سے ہوئی انہوں نے نہایت شفقت فرمائی۔ہماری تواضع بھی کی اور ہمیں علامہ اقبالؒ کا سکول بھی دکھایا۔علامہ اقبال ؒ کے زمانے میں سکول میں پانی کا ذریعہ ایک کنواں تھا۔ جسے بعد میں بھر دیا گیا اور اسی گولائی میں اینٹیں لگا کر اس کے اندر دھریک کا پودا لگایا گیاجو اب کافی بڑا ہو چکا تھا۔بچے اپنے بستے اس تھانولے پر رکھ کر بیٹھے تھے۔سکول میں DCO سیالکوٹ کی آمد تھی اور زیادہ تر بچے اور اساتذہ صفائی میں لگے ہوئے تھے۔

محمد ادریس EST نے بتایا کہ اس وقت سکول میں تقریباََ ۱۴۰۰ طلباء زیرتعلیم ہیں ۔ان طلباء میں زیادہ تر مسلمان ہیں لیکن ہندو اور عیسائی بچے بھی ہیں۔ گزشتہ سال میٹرک کے امتحان میں ایک ہندو بچے ’’سجن‘‘ نے سکول میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔اساتذہ کی تعداد ۴۳ ہے جن میں ایک غیر مسلم( عیسائی )ہے باقی سب مسلمان اساتذہ ہیں۔
ہم نے تقریباََ ایک گھنٹہ علامہ اقبالؒ کے سکول میں گزارا۔ باوجود گرم موسم کے، ہمیں بہت اچھا لگا اور دل کو بڑا سکون ملا کہ ہم بھی وہاں بیٹھے ہیں جہاں کبھی علامہ اقبالؒ بیٹھے ہوں گے ۔دل پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ ایک بجے سکول میں چھٹی ہوئی اور بچے اپنے اپنے بستے اٹھا کر جانے لگے تو میں سوچ رہا تھا کہ کبھی اقبالؒ بھی اسی طرح اپنا بستہ اٹھا کر سکول سے واپس جاتا ہو گا۔ہم نے بھی اجازت لی اور علامہ اقبال ؒ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
علامہ اقبالؒ کا بچپن کا گھر سیالکوٹ کے کشمیری محلہ میں واقع ہے۔چونکہ اقبالؒ کے جد امجد ۱۷۵۲ ؁ء میں کشمیر سے ہجرت کر کے ہی سیالکوٹ آئے تھے لہٰذا یہاں زیادہ تر اقبالؒ کے برادری کے لوگ آباد تھے لیکن اب ان کا کوئی قریبی رشتہ دار یہاں آباد نہیں ہے۔ اقبالؒ کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال اور ان کی اولاد آج کل لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔(تحریر کے وقت ڈاکٹر جاوید اقبال حیات تھے اب وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں)
علامہ اقبالؒ کے دادا شیخ محمد رفیق نے ایک منزلہ مکان ۱۵۰ روپے کے عوض ۱۸۶۱ ؁ء میں خریدا تھا۔اس وقت یہ مکان ، ایک ڈیوڑھی، ایک دالان، دو کوٹھڑیوں اور ایک چھوٹے صحن پر مشتمل تھا۔ اس مکان کی ڈیوڑھی سے منسلکہ کوٹھڑی میں علامہ اقبالؒ کی پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ ؁ء بروز جمعہ ہوئی۔ ۸۹۲ٍ۱ ؁ء میں ملحقہ دو منزلہ مکان خرید کر اس میں شامل کر دیا گیا۔اور ۱۸۹۵ ؁ء میں بازار چوڑیگراں کی جانب واقع دو دکانیں خرید کر اس میں شامل کر دی گئیں۔۱۹۱۰ ؁ء میں علامہ اقبالؒ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے اس مکان کو ازسر نو تعمیر کروایا اور اب اس کی تین منزلیں ہیں۔دوسری منزل میں ایک کمرہ والدہ اقبال(امام بی بی)کے لیے مخصوص تھا ۔جس میں وہ بچوں کو قرآن پاک پڑھایا کرتی تھیں۔اب اس مکان کا کل رقبہ تقریباََ ۹ مرلے ہے۔ بازار کی طرف جو دو دکانیں تھیں انہیں اب ریڈنگ روم میں تبدیل کر دیا گیاہے۔ اس عمارت میں لکڑی کا استعمال بہت زیادہ ہوا ہے ۔کئی جگہ سیڑھیاں بھی لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔حکومتِ پاکستان نے اس گھر کو خرید کر ۱۹۷۱ ؁ء میں محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا ہے ۔اس مکان کے اندر جا بجا علامہ اقبال ؒ ، ان کے والد ، والدہ ، بھائی اور اساتذہ وغیرہ کی تصاویر لگی ہیں۔ایک مہمان خانہ بھی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے پیدائش والے کمرے کو خاص طور پر نمایاں کیا گیاہے ۔وہاں ایک (شیر خواربچے کا) چھوٹا سا پنگھوڑا بھی پڑا ہے۔باقی کمروں میں علامہ اقبالؒ کے زیر استعمال رہنے والی چند اشیاء رکھی گئی ہیں۔کچھ اشیاء کا تعلق علامہ اقبال ؒ سے نہیں بلکہ صرف مکان سے ہے۔یعنی وہ اشیاء اس مکان کے سابق مکینوں کی ہیں۔اس وقت جو اشیاء وہاں رکھی تھیں ان میں پنگھوڑا ، کرسی ، قلم دوات ، حقہ ، سالن گرم رکھنے والا ڈونگہ ، لکڑی کے صندوق ، لکڑی والی الماریاں ، کتابیں اور پلنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ہم تقریباََ ایک گھنٹہ اقبالؒ کے گھر میں گھومتے رہے۔ وہاں تصاویر بنوائیں ۔اور سیر کے لیے آنے والے بے شمار لوگوں سے گپ شپ بھی کی ۔محکمہ آثار قدیمہ کے انچارج سے بھی ملے، انہوں نے بڑی شفقت فرمائی اور کافی مفید معلومات فراہم کیں۔نیز وہاں تصاویر بنوانے کے لیے ان سے خصوصی اجازت بھی لی۔آخر پر ویز یٹرز(visitors) کے لیے رکھی گئی کتاب میں اپنے تاثرات لکھے اور اقبالؒ کے گھر سے باہر نکل آئے۔
اقبالؒ کے گھر کے باہر ایک ریڑھی والا نان چنے بیچ رہا تھا۔ہمیں بہت سخت بھوک لگی تھی۔نان چنے کا آرڈر دے کر ہم ساتھ والی ایک دکان میں بیٹھ گئے اس دکان پر شامی کباب اور بوتلیں وغیرہ تھیں۔یہ دکاندار بڑا زبردست آدمی تھا۔دنیا کے بیس سے زائد ممالک میں کاروبار کر چکا تھا۔ بہت معلوماتی گپ شپ بھی ہوئی اور ہم نے کھانا بھی اس کی دکان میں بیٹھ کر کھایا۔
کھانے سے فارغ ہوئے تو اقبال ؒ کے گھر کے بالکل سامنے واقع مسجد میں نماز ظہر ادا کرنے گئے۔ مسجد کا پورا نام ’’جامع مسجد جہانگیری و دارالعلوم ختم نبوت رجسٹرڈ‘‘ تھا۔نماز ظہر ادا کرنے کے بعد تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے ۔۲۰ کے قریب بچے قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔دل میں خیال پیدا ہوا کہ مدرس صاحب سے بات چیت کی جائے اور پوچھا جائے کہ کیا یہ مسجد اقبالؒ کے زمانے میں موجود تھی؟؟ مگر مدرس کا بچوں سے آمرانہ رویہ دیکھ کر ہمت نہ ہوئی ۔مدرس صاحب سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، ایک مہمان بھی ان کے پاس تھے۔ بچے بڑے شوق سے انہیں ہاتھ ملانے آتے مگر وہ بڑے پُرغرور انداز میں ہاتھ ملاتے اور جیسے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ذرا بھی نہ ہلتے۔ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد ہم بھی مسجد سے اٹھے اور باہر نکل آئے۔
اب ہماری اگلی منزل علامہ اقبالؒ کا آبائی قبرستان تھا، جہاں ان کے والدین کی قبریں ہیں۔اسے ’’امام صاحب والاقبرستان‘‘کہتے ہیں اور یہ اقبال ؒ کے گھر سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے۔ یہ نہایت پرانا قبرستان ہے۔ اس کی زمین بھی ہموار نہیں ہے۔ بہت بڑا قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں علامہ اقبالؒ کی والدہ ( امام بی بی) والد ( شیخ نورمحمد) اور علامہ اقبالؒ کی دختر معراج بیگم(وفات ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۵ء ؁) کی قبریں ایک ساتھ ہیں۔ان تینوں قبروں کے اوپر حکومت کی طرف سے ایک شیڈ بنا دیا گیاہے۔ نیز قبروں کو پختہ بھی کیا گیا ہے۔
اس قبرستان میں بے شمار چرسی ، پوڈری اور مانگنے والے فقیر بیٹھے تھے۔بہت سے لوگ مختلف قبروں کو اپنے اپنے پیروں کی قبریں بتا رہے تھے۔ان پر دیے جلا رہے تھے اور نذرو نیاز کا سلسلہ شروع کیے ہوئے تھے۔ہم نے اقبالؒ کے والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی اور وہاں سے چل دیے۔اب شام قریب تھی لہٰذا واپس حاجی کیمپ آگئے۔اس کے علاوہ پھر ایک دن سیالکوٹ آئے لیکن اب ہمارا مقصد سیالکوٹ شہر گھومنا اور یہاں سے کھیلوں کا سامان خریدنا تھا۔
ایک دن وقت نکال کر میں ، ڈاکٹر محمد منیر، قاضی محمود الحسن اور محمد اعجاز وزیر آباد گئے ۔یہاں آنے کے دو مقاصد تھے ۔ اول یہاں کٹلری کا سامان تیار ہونے والے کارخانے اور مارکیٹ دیکھنا او ر دوم تحریک آزادی کے رہنما مولانا ظفر علی خان کی قبر پر حاضری دینا۔سب سے پہلے ہم نے وزیر آباد شہر میں کٹلری کے سامان کے کارخانے اور دکانیں دیکھیں۔بہت بڑی مارکیٹ کٹلری کے سامان مثلاََ چھریاں، چاقو، قینچیاں ، تلواریں ، آؒ لات جراحی وغیرہ سے بھری پڑی تھی۔ہم نے بھی ضرورت کی کچھ اشیاء خریدیں۔اور مولانا ظفر علی خان کی قبر کی طرف چل پڑے۔
مولانا ظفر علی خان کی قبر وزیر آباد شہر سے سیالکوٹ روڈ پر تین کلومیٹر کے فاصلے پر کرم آباد میں ہے۔ کرم آباد مولانا ظفر علی خان کے دادا ( کرم الٰہی) کے نام پر آباد گاؤں ہے۔مولانا ظفر علی خان ، علامہ اقبال ؒ کے ہم عصر تھے۔آپ ۱۸۷۳ ؁ء میں کرم آباد میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۴ ؁ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔نواب محسن الملک کے سیکرٹری رہے۔آپ کے والد مولوی سراج الدین لاہور سے ’’ زمیندار‘‘ اخبار نکال رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد مولانا ظفر علی خان نے اس اخبار کو نہایت احسن طریقے سے چلایا ۔آپ ایک اچھے صحافی اور بہترین مقرر تھے۔ تحریک آزادی کے حوالے سے بے باک صحافت اور شعلہ بیاں تقریروں کی بدولت کئی دفعہ انگریزنے آپ کو قید کیا۔آپ کے اخبار کو بھی بند کیا گیا ۔کیمبل پور( اٹک) میں انگریزوں کے خلاف تقریر کرنے پر آپ کو ۵ سال قید بھی ہوئی تھی۔ علامہ اقبال ؒ آپ سے بے حد متاثر تھے ۔انہوں نے مولانا کو ایک غیر معمولی دل و دماغ کا آدمی قرار دیا تھا ۔اور ان کے قلم کی روانی کو دنیا کے عظیم مجاہدین کی تلواروں کی روانی کے برابر قرار دیا تھا ۔ مولانا ظفر علی خان ۱۹۵۶ ؁ء میں فوت ہوئے ۔
ہم مغرب کے وقت مولانا ظفر علی خان کے مزار پر پہنچے۔مزار مین سیالکوٹ روڈ پر ہے۔مزارکے ساتھ ہی مولانا ظفر علی خان کی بنوائی ہوئی خوبصورت مسجد بھی ہے۔ جس کے سڑک کی جانب مولانا ظفر علی خان کا یہ مشہور زمانہ شعر لکھا ہوا ہے جسے لوگ علامہ اقبالؒ کا شعر کہتے ہیں:۔
؂ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کے
ہم نے مغرب کی نماز اسی مسجد میں پڑھی اور مولانا کے محلے داروں سے بات چیت بھی کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ مولانا ظفر علی خان بہت بڑے زمیندار تھے ۔ کرم آباد پورے کا پورا انہی کا تھا ۔ ان کے پوتے پوتیوں کی کوٹھیا ں بھی قریب ہی تھیں لوگوں نے مولانا ظفر علی خان کے تحریک آزادی کے حوالے سے بے شمار کارنامے بڑے فخر سے سنائے ۔ ہم نے مزار پر فاتحہ پڑھی اور واپس سمبڑیال آگئے۔
دس دن گزرنے میں دیر کہاں لگتی ہے۔ یہی صورتحال ہماری ڈیوٹی کی تھی ۔سیالکوٹ حاجی کیمپ میں ڈیوٹی کابہت مزا آیا ۔ہمارے وفد لیڈر اور کوآرڈینیٹر جنا ب غلام حیدر قمر(فیصل آباد) نہایت معقول آدمی تھے۔ حاجی صاحبان کی جی بھر کر خدمت کی اور ان کی ڈھیروں دعائیں لیں۔ ڈیوٹی کے آخری دن ایک پروقار تقریب میں ہمیں الوداع کہا گیا اور شیلڈز اور سر ٹیفکیٹس دیئے گئے۔سب دوست ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اورپھھر اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہو گئے ۔
آپ کو ’’شہر اقبال ؒ میں چند روز ‘‘ کالم کیسا لگا؟؟
ضرور بتائیے گا۔۔۔!
والسلام

پھر ملیں گے!

pic4 pic3 pic2 pic1

pic7 pic5 pic6

[custom-button

Read More

Candidates in Union Council Pindsultani

یونین کونسل پنڈسلطانی میں بلدیاتی الیکشن کے امیدوار
مقامی حکومتوں کے انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔جبکہ دوسرے مرحلے کیلئے ۵ دسمبر 2015ء کو پولنگ ہورہی ہے۔ضلع اٹک کا شمار دوسرے مرحلے میں ہے۔ اس حوالے سے یونین کونسل پنڈسلطانی میں بھی الیکشن کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔چناچہ لوگوں کی سہولت کے پیشِ نظر میں نے آج کی محفل یونین کونسل پنڈسلطانی میں چئیرمین اوروائس چئیرمین کا الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے تعارف کیلئے سجائی ہے۔تاکہ اہلیانِ علاقہ کو گھر بیٹھے امیدواروں کے انتخاب میں آسانی رہے۔
کے بلدیاتی الیکشن مین یونین کونسل پنڈسلطانی سے تین / تین لوگ چئیرمین کے/ وائس چئیرمین کا الیکشن لڑرہے ہیں ۔ان حضرات کا تعارف چئر مین کی ناموں کی الف بائی ترتیب سے درج کیا گیا ہے۔2015
آصف نواز خان اور محمد سلیم
* آصف نواز خان 8اگست 1968 کو پنڈ سلطانی میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام محمد نواز خان(وفات24جون2006)ہے جو ایک استاد تھے ۔آصف نواز خان نے پرائمری اور مڈل تعلیم پنڈ سلطانی سے حاصل کی جب کہ میٹر ک کا امتحان 1986میں گور نمنٹ ہائی سکول ٹوبہ دومیل سے پاس کیا۔ پھر گور نمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول G/8اسلام آباد سے ایف اے پاس کیا ۔1989-90میں TIPاسلام آباد سے ڈیڑھ سالہ ٹیلی کمیونیکیشن کا ڈپلومہ کیا ۔ 1991میں محکمہ ٹیلی فون میں بطور ٹیکنیشن ملازمت کا آغاز کیا۔1994میں شارجہ چلے گئے۔اور2000میں واپس پاکستان آئے۔ 2002میں ترقی پاکر سپر وائزر بنے جبکہ 2012میں گولڈن پینڈ شیک لے لی۔ اور ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد گھر پر زمینداری شروع کی اور ساتھ ہی عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا آپ کے والد محترم نے بھی بطور کونسلر 1991بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا تھا ۔ آصف نواز خان پاکستان مسلم لیگ ۰ن) کی مکمل حمایت حاصل ہے اس کے علاوہ جمیعت علمائے پاکستان کی قیادت بھی ان کے ساتھ ہے۔ JUP اس لئے آپ کا ساتھ دے رہی ہے۔کہ جب JUPکے رہنما محمد داؤد مصطفائی کو 2013میں شہد کیا گیا تو آصف نواز خان نے محمد داؤد مصطفائی کے اہل خانہ اور دوستوں کا ساتھ دیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ محمد داؤد مصطفائی کی شہادت سیعلاقے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیاہے۔ان سے سارے خاندان سے زیادتی ہوئی اور ہو ررہی ہے لہذا میں اس خاندان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آصف نواز خان کی کہنا ہے کہ لوگوں کے مسائل کا خاتمہ اور علاقہ ٹاؤٹ گیری اور پیسہ کلچر کا خاتمہ ان کی سیاست کا مشن ہے۔ اس سے قبل کی خدمات میں انہوں نے بتایا کہ علاقے کو طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے انہوں نے 2002میں حمزہ میڈیکل سنٹر بنایا۔ محلہ کورک کا پل ،ڈھوک کھٹڑ اور ڈھوک رحمت میںMPAکی گرانٹ سے واٹر سپلائی کی منظوری اور پنڈ سلطانی اور گردو نواح میں کئی گلیوں کی تعمیر ہوئی۔
یونیں کونسل پنڈ سلطانی کی تمام چھ وارڈوں میں آپ کے حماکیت یافتہ امیداوار ہیں ان امیدواروں میں محمد داؤد نقیبی،گلزاراحمد ، حافظ محمد قاسم ،منیر احمد ،ظہور احمد اور محمد حسین شامل ہیں۔آصف نواز خان پڑھے لکھے مہذب اور ایک شریف خاندان کے چشم و چرغ ہیں اور پہلی دفعہ سیاست میں آرہے ہیںَ
* محمد سلیم:آپ آصف نواز خانے کے ساتھ وائس چئر مین کیلئے امیداوار ہیں۔آپ 12-05-1972کو اورنگ آبا د میں پیدا ہوئے۔ والد کانام لال خان (وفات1998)ہے۔ جو اورنگ آباد میں کپڑے کی دکا ن کرتے تھے ۔ پیشے کے اعتبار سے زمیندار ہیں۔محمد سلیم نے پرائمری تک اورنگ آباد میں پڑھا پھر گورنمنٹ ہائی سکول چورہ شریف داخل ہوئے اور وہاں سے 1991میں میٹرک کا اکمتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد اپنے آبائی پیشے زمینداری سے منسلک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا علاقہ جدید دور میں میں بھی ؛بہت پیچھے ہے اور وہ فلاحی کام کی نیت سے سیات میں آئیے ہیں اس سے قبل بھی ان کی معرفت کھچھ فلاحی اور ترقیاتی کام ہوئے ہیں۔ پہلی دفعہ سیاست کے خارزار میں قدم رکھ رہے ہیں معز ز گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
2 سردار احمد خان اور سید انوار علی شاہ:
* سراحمد خان: سردار احمد خان 28/03/1968کو پنڈ سلطانی میں پیدا ہوئے والد سردار فتح خان (وفات:28-07-2011)زمیندار تھے آپ کے دادا کا نام مہر خان تھا جن کو تھٹی سیداں کے پیر لال حسین شاہ (سید انوار علی شاہ کے پڑدادا)نے سائیں کا لقب دیا اور پھر خاندان ہی سایں کے نام سے مشہور ہوا۔سردار احمد خان نے رائمری تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول ڈھوک نکہ سے حاصل کی واضح رہے کہ مذکورہ سکول کے لئے زمین آپ کے والد نے آپ کے دادا کے ایصال ثواب کے لئے دی ت؛ھی۔ مڈل تعلیم مڈل سکول پنڈ سلطانی سے حاصل کی جبکہ میٹرک گور نمنٹ ہائی سکول ٹوبہ دومیل سے 1988میں کی۔ 1988میں ہی آپ کو زکوٰۃ و عشر کمیٹی محلہ بترال کارپوریشن لیڈر بنایا گیا۔پنڈ سلطانی لاری اڈہ پر سواقع جامع مدجد کنز ا لایمان کے لئے ایک کنال دو مرلے زمین آپ کی دادی جان نے دی تھی۔ مسجد کے نام انتقال 1990میں ہوا۔مسجد 1993 میں شروع ہوئی۔ مسجد کا سنگ بنیاد معروف عالم دین قاضی فیض عالم اور پید سید غلام عباس شاہ نے رکھا۔ 09/11/1993کو مدرسے کاسنگ بنیاد رکھا گیا۔اس سلسلے میں بابا عبدالمجید(پیر دیول شریف)مفتی محمد ریاض الدین صاحب اور عبد الغفور صاحب گڑھی شریف (پیر نصیر الدین نصیر کے استاد )بھی تشریف لائے۔
2014میں آپ نے “سائیں ویلفئر ٹرسٹ”کا قیام عمل میں لایا۔آپ کے والد سر دار سائیں فتح خان مسجد کے احاطہ میں دفن ہیں۔ان کا عرس ہر سال منایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مدرسے اور مسجد کے زیر اہتمام جشن عید میلاد النبی ﷺ ،شہادت امام حسینؓ اور حضر ت ابو بکر صدیقؓ کا عرس بھی منایا جاتا ہے۔
سردار احمد خان نہایت ملن سار ،خوش مزاج اور ظریفانہ طبیعت رکھنے والے انسان ہیں ۔ پہلی دفعہ سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔1997میں الیکشن کا پروگرام تھا مگر تھٹی سیداں کے پیر صاحبان کی مداخلت سے ملتوی کر دیا۔ سیاست میں آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے سردار احمد خان نے کہا کہ انہیں غریب لوگوں نے الیکشن میں حصہ لینے پر مجبور کیا۔آئین اور شریعت کے مطابق امن قائم کرنا ان کا مشن ہے۔ لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر تاریخوں پر جاتے ہیں امیداور اور پولیس ملکر غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کو ان کے حقوق دلوائیں گے۔آپ آزاد امیدوار ہیں اور سید کھٹڑ اتحاد کے حامی ہیں۔
* انوار علی شاہ:آپ سردار احمد خان کے ساتھ وائس چیئر میں کے امیداور ہیں آپ 23-03-1978کو تھٹی سیداں میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی سید کوثر علی شاہ سابقہ کونسلر ہیں۔ میجر طاہر صادق کے دور میں کونسلر بنے۔ آپ کے دادا سید حیدر علی شاہ پنڈ سلطانی کے ملک عبدالقادر کے اتحادی اور دوست ہیں۔سید انور علی شاہ نے ابتدائی تعلیم تھٹی سیداں اور مڈل تعلیم مڈل سکول پنڈ سلطانی سے حاسل کی۔ اس دوران آپ سردار احمد خان کے گھر رہائش پذیر رہے۔ آپ نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول میانوالا سے 1993میں کی۔میٹرک کے بعد ذمینداری سے وابستہ ہوگئے۔ اب زمینداری کے ساتھ پولٹری کا کام بھی کرتے ہیں۔
سید انوار علی شاہ بھی پہلی دفعہ سیاست میں آ رہے ہیں اس سے قبل ان کے والد 2000ء میں کونسلر بنے ۔ ان کے ماموں سید سبطین شاہ نائب ناظم اور پھر ناظم یو۔سی پنڈ سلطانی رہے۔سید انوار علی شاہ کا کہنا ہے کہ 1983میں ان کے داد ا کے دور میں تھٹی سیداں میں سرکاری ڈسپنسری بنی جو 1987میں بند کر دی گئی۔ پھر ان کے گاؤں میں کوئی کام نہیں ہوا۔2000ء میں ان کے والد نے ڈھوک رحمت روڈ بنوایا۔ پیر عباس کی کوششوں سے ایک ڈیم بھی بنوایا۔ اورتھٹی سیداں کے علاقوں میں بجلی دی گئی۔ان کہنا ہے کہ میجر طاہر صاد ق کو تھٹی سیداں لانے والا شخص میں ہی ہوں۔
سید انوارعلی شاہ کہ کہنا ہے کہ وہ اس علاقے کی محرومیاں دور کرنے کیلئے سیاست میں آئے ہیں ۔تھٹی سیداں کے علاوہ تما م نواحی آبادیوں میں فلاحی کام کرنا چاہتے ہیں۔تا کہ لوگ خوشحال ہوجائیں۔ اور ملک ترقی کرے۔ آ پ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن ہر الیکشن میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ آپ کا گروپ محمد سلیمان اور علی خان امیدوار برئے کونسلر کی حمایت میں ہیں۔
ماسٹر عبدالحمید خان اور /ملک محمد بشارت
* ماسٹر عبدالحمیدخان:ماسٹر عبدالحمید خان 31-03-1955 کو پنڈ سلطانی میں پیدا ہوئے والد محمد اکبر خان ایک بڑے زمیندار تھے،۔ آپ نے پرائمری تعلیم پنڈ سلطانے سے حاصل کی آپ کے بھائی (ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ دوست محمد خاں) ان دنوں لاوہ میں تھے ۔ لہذاٰپرائمری کے بعد وہ آپ کے اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ نے مڈل ہائی سکول لاوہ سے پاس کیا۔ اس کے بعد دوست محمد خان جنڈ آگئے اور آ پ نے بھی جنڈ میں داخلہ لے لیا۔میٹرک گور نمنٹ ہائی سکول جنڈ سے 1970ء میں کی۔1971ء میں پرائمری ٹیچنگ کورس کیا ۔اور 1972 میں بطور پرائمر مدرس آپ کی تقرری پرائمر سکول لنگر تحصیل فتح جنڈ میں ہوگئی۔ پھر آپ کی ترقی بطور ای۔ایس۔ٹی ہوئی اور گورنمنٹ ہائی سکول باہتر بھیج دیا گیا۔ ہائی سکول باہتر سے دومیل آگئے۔ پھر بسال ،ناڑہ اور پھر پنڈ سلطانی آئے۔1998ء میں مڈل سکول پنڈ سلطانی سے ریٹائر منٹ لے لی۔ اس کے بعد زمینداری شروع کر دی۔ جو اب تک جاری ہے۔ زمینداری کے علاوہ کچھ عرصہ ٹرانسپورٹ کا کام بھی کیا۔ پھر ہوٹل بنایااور کرایہ پر دے دیا۔ سیاست میں پہلی دفعہ بطور آزادامید وار سامنے آئے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف ، میجر طاہر صادق گروپ اور جماعت اسلامی آپ کی حمایت کر رہی ہے۔ سیاست میں با ضابطہ آمد سے قبل بھی آپ کا سیاسی و فلاحی کردار بہت نمایاں رہا۔آپ نے اس سے قبل جن فلاحی اور ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرایا ان میں آڑے والا پل،بجلی کے چند پول اور بہت سی گلیوں کی تعمیر شامل ہے۔عبدالحمید خان نے سیاست میں آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر میدان میں آیا ہوں تاکہ لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں۔انصاف کا بول بالا ہو۔ترقیاتی کام ہوں نوجوانوں کھیل اور صحتمند سر گرمیاں میسر ہوں۔اور چھوٹے موٹے جھگڑوں کا فیصلہ مقامی سطح پر ہی طے پا جائے۔عبدالحمیدخان کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ پیچیدہ قسم کے جھگڑوں کو بھی نہایت سلجے ہوئے انداز میں حل کر لیتے ہیں۔آپ نہایت ملن سار، شگفتہ مزاج اور معاملہ فہم انسان ہیں۔آ پ کے ساتھ کونسلروں کی حمایت یافتہ امیداواروں میں شفیق الرحمن ، شفقت حسین،محمد اقبال خان بالی،آصف نذیر گڑھی اور محمد اکرم اورشوکت رنگلی شامل ہیں۔
* ملک محمد بشارت خان:آپ ماسٹر عبدالحمید خان کے ساتھ وائس چیئر مین کے امیداوار ہیں۔ آپ 1956میں اونگ آباد میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد ملک عبدالسلام (وفات 2010)زمینداری کرتے اور اپنے گاؤں کے نمبر دار تھے۔ آپ نے ابتدئی تعلیم اونگ آباد سے حاصل کی اس کے بعد گور نمنٹ ہائی سکول جنڈ میں داخلہ لیا۔1969میں وہاں سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد اپنے آبائی پیشے زمینداری کی طرف آگئے۔
آپ کے والد ملک عبدالسلام گاؤں کے بڑے سیاسی آدمی تھے۔ کئی دفعہ کونسلر منتخب ہوئے ملک محمد بشارت پہلی دفعہ سیا ست میں آئے۔ اپنی سیاست میں آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل مجھے کوئی گرانٹ نہیں ملی لیکن میں نے ذاتی وسائل سے گاؤں کے ترقیاتی کام کروائے اور اب بھی چاہتا ہوں کہ گاؤں میں ترقیاتی کام ہوں۔ نوجوانوں کے مسائل حل ہوں اور لوگوں کوملازمتیں بھی ملیں۔
ملک محمد بشارت اپنے گاؤں کے نمبردار بھی ہیں۔نہایت شریف ،خوش اخلاق اور انتہائی سادہ مزاج انسان ہیں۔
قارئین و ناظرین!
یہ تھا یونین کونسل پنڈ سلطانی سے امیدوران برائے چئیر مین ،وائس چئیرمین کا مختصر تعارف امید ہے کہ آپ کو یہ تعارت پسند آیا ہوگا۔ موجودہ الیکشن کے حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔لیکن پنڈ سلطانی یونین کونسل کے عوام نے تمام جماعتوں کو اس حد تک مسترد کر دیا ہے کہ امیداوار کسی جماعت کا نام لینے سے گھبرانے لگے ہیں۔ اور تمام امیدوار آزاد طور پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
دوسری خاص بات یہ ہے کہ چیئر مین و وائس چئیر مین اور کونسلر کے بہت سے امیدوار پہلی دفعہ سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی ڈیمانڈ ہے کہ اب نئے لوگ سامنے آئیں۔
تیسری خاص بات ایک عرصہ کے بعد پنڈ سلطانی گاؤں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ چئیر مین کے تینوں امیدوار اسی گاؤں سے ہیں ۔ورنہ کچھ عرصہ قبل تو آس پاس کی آبادیوں نے قبضہ ہی کر لیا تھا۔اب کوئی بھی جیتے گا پنڈ سلطانی ہی جیتے گا۔
آپ کو کالم کیسا لگا ضرور لکھئے گا۔
شکریہ والسلام

Read More

محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

پنڈسلطانی کا ایک قدیم محلہ ٹیہہ ہے جو کئی سو سال سے دومیل کا محلہ کہلا تا ہے۔اس محلے کی قسمت کے بارے میں ہر کوئی سوال کر تا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ پنڈسلطانی کی حدود میں واقع محلہ دومیل گاؤں کا محلہ کہلائے ۔ میں آج آپ کو اسی محلے articleکی کہانی سنا تا ہوں۔اس کے پس منظر میں جانے کے لیے کچھ دیر تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں:۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر میں مغلیہ سلطنت کو زوال آنا شروع ہو گیا۔اس زوال کی بنیا دیں خود اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہی رکھ دی گئی تھیں۔اورنگ زیب سخت گیر مذہبی خیالات کا حامل تھا اس نے ہندوؤں کے کچھ مندر گرا دیئے اور ہندو رسومات والے کچھ ادارے بھی بند کرا دیئے۔ موسیقی کا خاتمہ کیا ، جشنِ نو روز کو شیعہ تہوار قرار دے کر ختم کر دیا۔شعرا ء اور نجومیوں کو فضول شخصیات قرار دے کر دربار سے نکال دیا ۔خود پابند صوم و صلوٰۃ تھا ۔سادہ لباس، کم خوراک اور تھوڑی نیند کا عادی تھا۔مذہبی سخت گیری کی وجہ سے ہندوستان بھر سے سکھ ، مرہٹے اور دیگر ہندو راجپوتوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف اچھی خاصی افراتفری پیدا کی اور کسی حد تک مغلیہ سلطنت کے زوال کا باعث بھی بنے۔
جہانگیر کے زمانے میں سکھوں کے گورو ارجن نے شہزادہ خسرو ( جس نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تھی) کو پناہ دی۔جہانگیر نے گورو ارجن کو جرمانے کی سزا دی اور انکار پر اسے قتل کرادیا۔جس سے سکھوں میں اسلام دشمنی کا جذبہ پیدا ہو گیا ۔ گور و ارجن کے قتل کے بعد اس کے بیٹے گور و گوبند سنگھ نے سکھوں کو باقاعدہ فوجی تربیت دی اور مغلوں کے مقابلہ کے لیے تیار کیا۔۱۶۷۵ ؁ء سے ۱۷۰۸ ؁ء تک پنجاب میں سکھوں کو آخری گورو گوبند سنگھ نے بہترین فوجی تربیت دی۔سکھوں کو مخصوص لباس پہننے اور شکل و صورت اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ سکھوں کو ان کے باغیانہ خیالات نے لٹیرا بنا دیا ۔انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو لوٹنا شروع کر دیا۔خاص طور پر پنجاب میں (جو مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کا بھی صوبہ تھا)سکھوں نے اپنے باقاعدہ جتھے (گروہ) بنا لیے اور لوٹ مار کا خوب بازار گرم کیا ۔اس لوٹ مار کے دوران کئی مسلمان شہید بھی کئے گئے۔کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔
وقت تیزی سے گزرتا رہااور سکھ پنجاب کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر تے کرتے اٹک آگئے۔ سکھوں کی اٹک آمد اور کاروائیوں کا حال محمد نواز اعوان ایڈووکیٹ اپنی تصنیف ’’تاریخ سرزمین اٹک‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:۔
’’سکھ نہایت تیز رفتاری سے شمالی علاقوں کی جانب بڑھے جہاں کھٹڑوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔۱۷۶۸ ؁ء میں سکھ راولپنڈی تک پہنچ گئے۔‘‘ (تاریخ سرزمین اٹک صفحہ ۵۰)
’’سردار چتر سنگھ نے موقع دیکھتے ہی سرزمین اٹک کے علاقہ فتح جنگ پر حملہ کر کے قبضہ میں لے لیا۔‘‘(صفحہ ۵۰)
’’سہارنپور سے لے کر اٹک اور ملتان سے سندھ تک جبکہ کانگڑہ سے بھمبر تک سکھ مقبوضات ہونے کی وجہ سے سردار جامہ میں مٹ نہیں رہے تھے ۔ سرزمین اٹک کے زیادہ تر حصے پر پہلے ہی رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ کا قبضہ ہو چکا تھا۔۱۷۸۹ ؁ء میں مہا سنگھ کے مالیہ کی وصولی کی غرض سے پنڈی گھیب کے ملک امانت خان کو تلہ گنگ پنڈی گھیب کا علاقہ سات ہزار روپے سالانہ کے ٹھیکہ پر دیا جبکہ قصبہ مکھڈ کا مالیہ سکھ ملازمین وصول کرتے مگر گردونواح کا مالیہ خان مکھڈ لیتا تھا۔‘‘(صفحہ ۵۱)
’’سکھوں کے عہد میں قلعہ اٹک کے حاکم حکما سنگھ ، گورمکھ سنگھ ، سردھنا سنگھ ، دیوان سنگھ اور سربلند سنگھ رہے۔۱۸۱۳ ؁ء تا ۱۸۳۳ ؁ء سکھ حسن ابدال ، علاقہ چھچھ، چک سروالہ اور چک نلہ ( موجودہ تحصیل اٹک)کا مالیہ فصل کی صورت میں لیتے رہے۔ چوہدری مفراللہ آف موسیٰ کو سکھوں نے یہ علاقہ سات سال کے عرصہ کے لیے چوبیس ہزار روپیہ سالانہ پٹہ پر دیا۔‘‘ (صفحہ ۵۲۔۵۱)
یہ چند تاریخی واقعات اس لیئے نقل کیے ہیں کہ قارئین کے ذہن میں اس دور کے حالات کی سنگینی اچھی طرح واضح ہو جائے۔سکھوں کا دور انتہائی بدا منی کا دور تھا اور ان کے لٹیرے حکومتی سرپرستی میں جتھوں کی شکل میں لوٹ مار کرتے اور خوب مال کماتے۔ ان سکھوں کی لوٹ مار کا ہدف مسلمان تھے۔پنڈسلطانی چونکہ شروع سے ہی مسلمان آبادی رہی اور یہ اسی حوالے سے مشہور بھی رہا اس لیے یہ گاؤں بھی سکھوں کی لوٹ مار سے نہ بچ سکا۔
آج میں آپ کو پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کے دومیل میں چلے جانے اور گھوڑا دوڑا کر زمین حاصل کرنے کی اصل کہانی سنانے لگا ہوں اس کہانی کا تعلق بھی سکھوں کے دور اور ان کے مظالم سے جڑا ہوا ہے۔واقعات کچھ یوں ہیں کہ سکھوں کے دور میں باقی پنجاب کی طرح پنڈسلطانی میں بھی سکھوں نے لوٹ مار کی کوشش کی۔ مگر زیادہ تر ناکام رہے ۔ایک دفعہ جب وہ علاقہ نر ڑہ کی طرف سے آئے تو تعداد اور طاقت میں زیادہ ہونے کے باوجود ، وہ پنڈسلطانی سے مال لوٹنے میں تو ناکا م رہے مگر دونوں طرف سے لڑائی کی وجہ سے بہت سا جانی نقصان ہوا۔ پنڈسلطانی کے کچھ لوگ بھی مارے گئے اور سکھوں کابھی بہت سا جانی نقصان ہوا۔جاتے وقت سکھ اہلیانِ پنڈسلطانی کو دھمکی دے گئے کہ اب ہم باضابطہ آپ سے مقابلے کے لیے آئیں گے۔تیار رہنا!!
پنڈسلطانی کا علاقہ اس وقت ایک سٹیٹ کی شکل میں تھا ۔سکھوں کی دھمکی سے پنڈسلطانی کی سٹیٹ کا مالک بہت پریشان ہوا کیونکہ اسے سکھوں کی طاقت کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔سکھوں سے ملنے والی وارننگ کوئی معمولی بات نہ تھی لہٰذا پنڈسلطانی گاؤں کے کسی بڑے یا سٹیٹ کے مالک (نام اب تک معلوم نہ ہو سکا) نے پنڈسلطانی کے قریب ترین نئے آباد ہونے والے گاؤں دومیل کی مسلمان آبادی سے سکھوں کے مقابلے کے لیے مدد مانگی اور درخواست کی کی اس صورت میں پنڈسلطانی کو افرادی قوت دی جائے۔سکھوں کے عہد میں سکھوں کے خلاف کسی کی مدد کرنے کا فیصلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔لہٰذا اپنے جانی نقصان سے بچنے کے لیے اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے معذرت کر لی۔ لیکن دونوں گاؤں کے بڑوں کے درمیان بات چیت چلتی رہی۔آخر دومیل کی مسلمان آبادی اس بات کی قائل ہو گئی کہ سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا جائے گا۔ چونکہ ایسی صورت میں نقصان یقینی تھا لہٰذا پنڈسلطانی سٹیٹ کے مالک (یا کسی بڑے شخص)نے دومیل کی اس آبادی سے ، جو سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دے گی نقصان کی صورت میں یہ وعدہ کیا کہ آپ کو اتنی زمین دی جائے گی جس پر ایک دن گھوڑا چل سکے۔دونوں طرف سے اس وعدے پر بات پکی ہو گئی۔
آخر کار سکھوں نے لوٹ مار کی غرض سے بھی اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بھی پنڈسلطانی پر حملہ کر دیا ۔جہاں اہلیان پنڈسلطانی بڑی دلیری سے لڑے وہاں دومیل کے مسلمانوں نے بھی بھرپور انداز میں پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا۔باقاعدہ جنگ ہوئی اور پنڈسلطانی کے علاوہ دومیل کے بھی بہت سے لوگ مارے گئے ۔ تاہم سکھوں کویہاں سے بری طرح شکست ہوئی اور وہ یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر کبھی اس علاقے کا رخ نہ کیا۔
جب حالات معمول پر آئے تو اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے وعدے کے مطابق زمین کا مطالبہ کیا جو پنڈسلطانی والوں نے مان لیا اور طے ہوا کہ مقررہ دن کو معززین علاقہ کے سامنے گھوڑا ایک جگہ سے چلنا شروع کرے گا اور جہاں تک جا سکا وہ زمین دومیل والوں کو دے دی جائے گی ۔لہٰذا مقررہ دن کو بابا رسالدار خان کے گھر کے قریب سے گھوڑا چلایا گیا ۔حاجی اصغر والی گلی سے ہوتا ہوا پیر صاحبان کے کنوئیں سے نالہ سوکا پار گیا۔یہاں سے پُل سوکا (کوہاٹ روڈ) کے قریب مولانا ہاشم کے گھر کے مغرب کی طرف سے ہوتا ہوا مزمل خان کے گھر اور پھر بنیا مین کی بھٹی سے ہوتا اور نالہ دوتال کو کراس کرتا ہوا آڑا سے گزر کر اورنگ آباد کی سرحد تک پہنچ گیا ۔پھر اورنگ آباد کی سرحد کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف چلتا گیا اور ڈھوک ولیاں کے مغرب اور حویلی کے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا رنگلی کے قریب سے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا میرا کی طر ف آنے لگا۔نمل ریلوے سٹیشن کے قریب سے گزر کر گھوڑا راجے والوں کی جگہ سے ہوتا ہوا بابا غازی کی بن ( ڈھوک میرا ) کے قریب پہنچ گیا۔یہاں پنڈسلطانی والوں نے گھوڑا روکنے کو کہا۔ گھوڑا رک گیا۔دراصل یہاں پنڈسلطانی والوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر گھوڑا اسی رفتار سے چلتا گیا توپنڈسلطانی کا سارا میرا زمین کا علاقہ دومیل کو مل جائے گا۔علاوہ ازیں ابھی دن کے ختم ہونے میں بھی بہت سا وقت باقی تھا لہٰذا یہاں دومیل اور پنڈسلطانی کے معززین کا ایک جرگہ بیٹھا جس نے دومیل والوں سے درخواست کی کہ اب گھوڑا دومیل کی طرف نہ جائے بلکہ اس کا رخ محلہ ٹیہہ کی طرف موڑا جائے ورنہ ہمارا بہت سا علاقہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔دومیل والوں نے جرگہ کی یہ بات مان لی اور گھوڑے کا رخ تبدیل کر دیا گیا ۔جہاں یہ جرگہ بیٹھا تھا ، اب بھی اس جگہ کو ’’جرگہ مار ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ جگہ بابا غازی کی بن کے قریب ایک لڑی پر مشتمل ہے۔
دوبارہ جب گھوڑا چلا تو وہ عطر کوٹے والے کے گھر سے ہوتا ہوا ڈھوک دلہہ سے ہو کر نیچے کی طرف آنے لگا۔ بابا شیر دل کی زمین کے قریب سے ہوتا ، پٹال سے گزر کر پھر نالہ سوکا کی طرف آگیا یہاں سے پڑاہ (نزد پرانا تھانہ) کی طرف بابا گلاب کے گھر کے قریب اورپھر سردار شیر خان مرحوم کے کنوئیں سے گزرتا ہوا محلہ ٹیہہ پر بابا امیر کی بھٹی والی جگہ سے اوپر آبادی کی طرف آگیا ۔یہاں سے سیدھا مشرق کی طرف چلا ۔بابو ریاض کے گھر سے ہوتا ہوا محلہ ٹیہہ کے بلند ترین مقام (جہاں آج کل برتنوں والی بھٹی ہے) سے گزر کر دوبارہ اس جگہ پر آگیا جہاں سے صبح چلا تھا ۔یہ جگہ بابا رسالدار کے گھر کے بالکل ساتھ بتائی جاتی ہے ۔گھوڑے کے چلنے میں کچھ پابندیاں بھی تھیں۔ مثلاََ یہ کہ جہاں پنڈسلطانی کی حد ختم ہو جائے وہاں سے تو گھوڑے کا رخ اس کا مالک موڑ لے گا مگر جب گھوڑا پنڈسلطانی کی حد میں چل رہا ہو گا تو پھر گھوڑا آزاد ہو گا ، جس طر ف کو مرضی جائے۔جب گھوڑے نے اپنا سفر مکمل کر لیا تو وعدے کے مطابق وہ ساری زمین سکھوں کے خلاف جنگ میں امداد کرنے پر پنڈسلطانی والوں نے دومیل والوں کو دے دی۔ اس جگہ کی حد وہی ہے جہاں سے گھوڑا گزرا تھا۔جب دومیل والوں کو زمین مل گئی تو انہوں نے وہاں کھیتی باڑی شروع کی ، وہاں کچھ گھرانے محلہ ٹیہہ میں آکر آباد بھی ہو گئے ۔ان لوگوں کی زمینیں دومیل میں بھی ہیں اور دومیل کے کچھ اورلوگوں کی زمینیں محلہ ٹیہہ میں بھی ہیں ۔بعد میں جب مختلف گاؤں کی زمینوں کی تقسیم ہو ئی تویہ محلہ دومیل ہی کودیا گیا کیونکہ یہاں آباد لوگ دومیل کے تھے۔یہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یہ تھی پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کی زمین دومیل کو دیئے جانے کی کہانی جو اب تک کئی افسانوی رنگ بھی اختیا ر کر چکی ہے ۔مثلاََ ایک بات یہ کی جاتی ہے کہ یہ زمین پنڈسلطانی کے ایک بڑے شخص ( سٹیٹ کے مالک وغیرہ) نے دومیل کے اپنے داماد کو دی اور کہا کہ تم گھوڑے پر بیٹھ کر جہاں تک جاؤ گے وہ زمین تمھیں دے دی جائے گی ۔یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر زمین داماد کو دی جاتی تو اس کا مالک آج بھی ایک ہی خاندان ہوتا جبکہ سب جانتے ہیں کہ محلہ ٹیہہ کی زمین کے کئی مالک ہیں اور ان کے خاندان الگ الگ ہیں۔ لہٰذا یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ زمین جنگ میں امداد کرنے کے صلہ اور دومیل والوں کے جانی نقصان کی تلافی کی طور پر دی گئی تھی۔اس حوالے سے کچھ اور باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں ۔مثلاََ یہ کہ حملہ کرنے والے رنگلی سے تھے ۔اور وہ فصلوں کا نقصان کرتے ۔اور جن گاؤں سے مدد مانگی گئی ان میں مٹھیال اور بسال وغیرہ بھی شامل تھے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ باتیں درست نہیں ۔دومیل والوں سے مدد اس بنا پر بھی مانگی گئی تھی کہ اس سے کئی سال قبل دومیل پنڈسلطانی کا ہی حصہ تھا ۔بلکہ دومیل کا نام ہی پنڈسلطانی سے دومیل دو ر ہونے کی وجہ سے دومیل رکھا گیا۔جب دومیل آباد ہوا تواس کا کوئی نام نہ تھا اور پہچان کے لیے کہا جاتا کہ وہ گھر یا آبادی جو پنڈسلطانی سے دومیل دور ہے اس کی یہ بات ہے وغیرہ۔انگریز دور حکومت میں جب ریلوے لائن بچھائی گئی تو ریلوے سٹیشن دومیل کا نام ’’پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن ‘‘ تھا ۔لہٰذا اس تعلق کی بنا پر صرف دومیل سے مدد طلب کرنے کی بات درست معلو م ہوتی ہے ۔باقی نہیں۔
آج شاید اہلیانِ ٹیہہ اس حوالے سے پریشان بھی ہیں کہ انہیں دومیل کی آبادی ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی ہیں ۔یونین کونسل تھٹہ ہونے کی وجہ سے لو گوں کو وہاں جانا پڑتا ہے ۔حلقہ پٹوار اور الیکشن کے حوالے سے اندراج بھی اسی طرح کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔اگر اہلیانِ ٹیہہ میری رائے پر عمل کریں تو وہ پھر سے پنڈسلطانی میں ہی شامل ہو جائیں۔
آپ کو گھوڑے والی یہ کہانی کیسی لگی ۔ضرور بتائیے گا!!
والسلام

Read More