محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

محلہ ٹیہہ کے گھوڑے کی کہانی

پنڈسلطانی کا ایک قدیم محلہ ٹیہہ ہے جو کئی سو سال سے دومیل کا محلہ کہلا تا ہے۔اس محلے کی قسمت کے بارے میں ہر کوئی سوال کر تا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ پنڈسلطانی کی حدود میں واقع محلہ دومیل گاؤں کا محلہ کہلائے ۔ میں آج آپ کو اسی محلے articleکی کہانی سنا تا ہوں۔اس کے پس منظر میں جانے کے لیے کچھ دیر تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں:۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر میں مغلیہ سلطنت کو زوال آنا شروع ہو گیا۔اس زوال کی بنیا دیں خود اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں ہی رکھ دی گئی تھیں۔اورنگ زیب سخت گیر مذہبی خیالات کا حامل تھا اس نے ہندوؤں کے کچھ مندر گرا دیئے اور ہندو رسومات والے کچھ ادارے بھی بند کرا دیئے۔ موسیقی کا خاتمہ کیا ، جشنِ نو روز کو شیعہ تہوار قرار دے کر ختم کر دیا۔شعرا ء اور نجومیوں کو فضول شخصیات قرار دے کر دربار سے نکال دیا ۔خود پابند صوم و صلوٰۃ تھا ۔سادہ لباس، کم خوراک اور تھوڑی نیند کا عادی تھا۔مذہبی سخت گیری کی وجہ سے ہندوستان بھر سے سکھ ، مرہٹے اور دیگر ہندو راجپوتوں نے اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف اچھی خاصی افراتفری پیدا کی اور کسی حد تک مغلیہ سلطنت کے زوال کا باعث بھی بنے۔
جہانگیر کے زمانے میں سکھوں کے گورو ارجن نے شہزادہ خسرو ( جس نے اپنے باپ کے خلاف بغاوت کی تھی) کو پناہ دی۔جہانگیر نے گورو ارجن کو جرمانے کی سزا دی اور انکار پر اسے قتل کرادیا۔جس سے سکھوں میں اسلام دشمنی کا جذبہ پیدا ہو گیا ۔ گور و ارجن کے قتل کے بعد اس کے بیٹے گور و گوبند سنگھ نے سکھوں کو باقاعدہ فوجی تربیت دی اور مغلوں کے مقابلہ کے لیے تیار کیا۔۱۶۷۵ ؁ء سے ۱۷۰۸ ؁ء تک پنجاب میں سکھوں کو آخری گورو گوبند سنگھ نے بہترین فوجی تربیت دی۔سکھوں کو مخصوص لباس پہننے اور شکل و صورت اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ سکھوں کو ان کے باغیانہ خیالات نے لٹیرا بنا دیا ۔انہوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کو لوٹنا شروع کر دیا۔خاص طور پر پنجاب میں (جو مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کا بھی صوبہ تھا)سکھوں نے اپنے باقاعدہ جتھے (گروہ) بنا لیے اور لوٹ مار کا خوب بازار گرم کیا ۔اس لوٹ مار کے دوران کئی مسلمان شہید بھی کئے گئے۔کئی جگہوں پر مسلمانوں کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔
وقت تیزی سے گزرتا رہااور سکھ پنجاب کے مختلف علاقوں پر قبضہ کر تے کرتے اٹک آگئے۔ سکھوں کی اٹک آمد اور کاروائیوں کا حال محمد نواز اعوان ایڈووکیٹ اپنی تصنیف ’’تاریخ سرزمین اٹک‘‘ میں یوں لکھتے ہیں:۔
’’سکھ نہایت تیز رفتاری سے شمالی علاقوں کی جانب بڑھے جہاں کھٹڑوں نے ان کی بھرپور مدد کی اور کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔۱۷۶۸ ؁ء میں سکھ راولپنڈی تک پہنچ گئے۔‘‘ (تاریخ سرزمین اٹک صفحہ ۵۰)
’’سردار چتر سنگھ نے موقع دیکھتے ہی سرزمین اٹک کے علاقہ فتح جنگ پر حملہ کر کے قبضہ میں لے لیا۔‘‘(صفحہ ۵۰)
’’سہارنپور سے لے کر اٹک اور ملتان سے سندھ تک جبکہ کانگڑہ سے بھمبر تک سکھ مقبوضات ہونے کی وجہ سے سردار جامہ میں مٹ نہیں رہے تھے ۔ سرزمین اٹک کے زیادہ تر حصے پر پہلے ہی رنجیت سنگھ کے والد مہا سنگھ کا قبضہ ہو چکا تھا۔۱۷۸۹ ؁ء میں مہا سنگھ کے مالیہ کی وصولی کی غرض سے پنڈی گھیب کے ملک امانت خان کو تلہ گنگ پنڈی گھیب کا علاقہ سات ہزار روپے سالانہ کے ٹھیکہ پر دیا جبکہ قصبہ مکھڈ کا مالیہ سکھ ملازمین وصول کرتے مگر گردونواح کا مالیہ خان مکھڈ لیتا تھا۔‘‘(صفحہ ۵۱)
’’سکھوں کے عہد میں قلعہ اٹک کے حاکم حکما سنگھ ، گورمکھ سنگھ ، سردھنا سنگھ ، دیوان سنگھ اور سربلند سنگھ رہے۔۱۸۱۳ ؁ء تا ۱۸۳۳ ؁ء سکھ حسن ابدال ، علاقہ چھچھ، چک سروالہ اور چک نلہ ( موجودہ تحصیل اٹک)کا مالیہ فصل کی صورت میں لیتے رہے۔ چوہدری مفراللہ آف موسیٰ کو سکھوں نے یہ علاقہ سات سال کے عرصہ کے لیے چوبیس ہزار روپیہ سالانہ پٹہ پر دیا۔‘‘ (صفحہ ۵۲۔۵۱)
یہ چند تاریخی واقعات اس لیئے نقل کیے ہیں کہ قارئین کے ذہن میں اس دور کے حالات کی سنگینی اچھی طرح واضح ہو جائے۔سکھوں کا دور انتہائی بدا منی کا دور تھا اور ان کے لٹیرے حکومتی سرپرستی میں جتھوں کی شکل میں لوٹ مار کرتے اور خوب مال کماتے۔ ان سکھوں کی لوٹ مار کا ہدف مسلمان تھے۔پنڈسلطانی چونکہ شروع سے ہی مسلمان آبادی رہی اور یہ اسی حوالے سے مشہور بھی رہا اس لیے یہ گاؤں بھی سکھوں کی لوٹ مار سے نہ بچ سکا۔
آج میں آپ کو پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کے دومیل میں چلے جانے اور گھوڑا دوڑا کر زمین حاصل کرنے کی اصل کہانی سنانے لگا ہوں اس کہانی کا تعلق بھی سکھوں کے دور اور ان کے مظالم سے جڑا ہوا ہے۔واقعات کچھ یوں ہیں کہ سکھوں کے دور میں باقی پنجاب کی طرح پنڈسلطانی میں بھی سکھوں نے لوٹ مار کی کوشش کی۔ مگر زیادہ تر ناکام رہے ۔ایک دفعہ جب وہ علاقہ نر ڑہ کی طرف سے آئے تو تعداد اور طاقت میں زیادہ ہونے کے باوجود ، وہ پنڈسلطانی سے مال لوٹنے میں تو ناکا م رہے مگر دونوں طرف سے لڑائی کی وجہ سے بہت سا جانی نقصان ہوا۔ پنڈسلطانی کے کچھ لوگ بھی مارے گئے اور سکھوں کابھی بہت سا جانی نقصان ہوا۔جاتے وقت سکھ اہلیانِ پنڈسلطانی کو دھمکی دے گئے کہ اب ہم باضابطہ آپ سے مقابلے کے لیے آئیں گے۔تیار رہنا!!
پنڈسلطانی کا علاقہ اس وقت ایک سٹیٹ کی شکل میں تھا ۔سکھوں کی دھمکی سے پنڈسلطانی کی سٹیٹ کا مالک بہت پریشان ہوا کیونکہ اسے سکھوں کی طاقت کا اچھی طرح اندازہ تھا ۔سکھوں سے ملنے والی وارننگ کوئی معمولی بات نہ تھی لہٰذا پنڈسلطانی گاؤں کے کسی بڑے یا سٹیٹ کے مالک (نام اب تک معلوم نہ ہو سکا) نے پنڈسلطانی کے قریب ترین نئے آباد ہونے والے گاؤں دومیل کی مسلمان آبادی سے سکھوں کے مقابلے کے لیے مدد مانگی اور درخواست کی کی اس صورت میں پنڈسلطانی کو افرادی قوت دی جائے۔سکھوں کے عہد میں سکھوں کے خلاف کسی کی مدد کرنے کا فیصلہ کوئی آسان کام نہ تھا۔لہٰذا اپنے جانی نقصان سے بچنے کے لیے اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے معذرت کر لی۔ لیکن دونوں گاؤں کے بڑوں کے درمیان بات چیت چلتی رہی۔آخر دومیل کی مسلمان آبادی اس بات کی قائل ہو گئی کہ سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا جائے گا۔ چونکہ ایسی صورت میں نقصان یقینی تھا لہٰذا پنڈسلطانی سٹیٹ کے مالک (یا کسی بڑے شخص)نے دومیل کی اس آبادی سے ، جو سکھوں کے خلاف پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دے گی نقصان کی صورت میں یہ وعدہ کیا کہ آپ کو اتنی زمین دی جائے گی جس پر ایک دن گھوڑا چل سکے۔دونوں طرف سے اس وعدے پر بات پکی ہو گئی۔
آخر کار سکھوں نے لوٹ مار کی غرض سے بھی اور اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بھی پنڈسلطانی پر حملہ کر دیا ۔جہاں اہلیان پنڈسلطانی بڑی دلیری سے لڑے وہاں دومیل کے مسلمانوں نے بھی بھرپور انداز میں پنڈسلطانی والوں کا ساتھ دیا۔باقاعدہ جنگ ہوئی اور پنڈسلطانی کے علاوہ دومیل کے بھی بہت سے لوگ مارے گئے ۔ تاہم سکھوں کویہاں سے بری طرح شکست ہوئی اور وہ یہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے اور پھر کبھی اس علاقے کا رخ نہ کیا۔
جب حالات معمول پر آئے تو اہلیان دومیل نے پنڈسلطانی والوں سے وعدے کے مطابق زمین کا مطالبہ کیا جو پنڈسلطانی والوں نے مان لیا اور طے ہوا کہ مقررہ دن کو معززین علاقہ کے سامنے گھوڑا ایک جگہ سے چلنا شروع کرے گا اور جہاں تک جا سکا وہ زمین دومیل والوں کو دے دی جائے گی ۔لہٰذا مقررہ دن کو بابا رسالدار خان کے گھر کے قریب سے گھوڑا چلایا گیا ۔حاجی اصغر والی گلی سے ہوتا ہوا پیر صاحبان کے کنوئیں سے نالہ سوکا پار گیا۔یہاں سے پُل سوکا (کوہاٹ روڈ) کے قریب مولانا ہاشم کے گھر کے مغرب کی طرف سے ہوتا ہوا مزمل خان کے گھر اور پھر بنیا مین کی بھٹی سے ہوتا اور نالہ دوتال کو کراس کرتا ہوا آڑا سے گزر کر اورنگ آباد کی سرحد تک پہنچ گیا ۔پھر اورنگ آباد کی سرحد کے ساتھ ساتھ مغرب کی طرف چلتا گیا اور ڈھوک ولیاں کے مغرب اور حویلی کے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا رنگلی کے قریب سے مشرق کی طرف سے ہوتا ہوا میرا کی طر ف آنے لگا۔نمل ریلوے سٹیشن کے قریب سے گزر کر گھوڑا راجے والوں کی جگہ سے ہوتا ہوا بابا غازی کی بن ( ڈھوک میرا ) کے قریب پہنچ گیا۔یہاں پنڈسلطانی والوں نے گھوڑا روکنے کو کہا۔ گھوڑا رک گیا۔دراصل یہاں پنڈسلطانی والوں کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ اگر گھوڑا اسی رفتار سے چلتا گیا توپنڈسلطانی کا سارا میرا زمین کا علاقہ دومیل کو مل جائے گا۔علاوہ ازیں ابھی دن کے ختم ہونے میں بھی بہت سا وقت باقی تھا لہٰذا یہاں دومیل اور پنڈسلطانی کے معززین کا ایک جرگہ بیٹھا جس نے دومیل والوں سے درخواست کی کہ اب گھوڑا دومیل کی طرف نہ جائے بلکہ اس کا رخ محلہ ٹیہہ کی طرف موڑا جائے ورنہ ہمارا بہت سا علاقہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔دومیل والوں نے جرگہ کی یہ بات مان لی اور گھوڑے کا رخ تبدیل کر دیا گیا ۔جہاں یہ جرگہ بیٹھا تھا ، اب بھی اس جگہ کو ’’جرگہ مار ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ جگہ بابا غازی کی بن کے قریب ایک لڑی پر مشتمل ہے۔
دوبارہ جب گھوڑا چلا تو وہ عطر کوٹے والے کے گھر سے ہوتا ہوا ڈھوک دلہہ سے ہو کر نیچے کی طرف آنے لگا۔ بابا شیر دل کی زمین کے قریب سے ہوتا ، پٹال سے گزر کر پھر نالہ سوکا کی طرف آگیا یہاں سے پڑاہ (نزد پرانا تھانہ) کی طرف بابا گلاب کے گھر کے قریب اورپھر سردار شیر خان مرحوم کے کنوئیں سے گزرتا ہوا محلہ ٹیہہ پر بابا امیر کی بھٹی والی جگہ سے اوپر آبادی کی طرف آگیا ۔یہاں سے سیدھا مشرق کی طرف چلا ۔بابو ریاض کے گھر سے ہوتا ہوا محلہ ٹیہہ کے بلند ترین مقام (جہاں آج کل برتنوں والی بھٹی ہے) سے گزر کر دوبارہ اس جگہ پر آگیا جہاں سے صبح چلا تھا ۔یہ جگہ بابا رسالدار کے گھر کے بالکل ساتھ بتائی جاتی ہے ۔گھوڑے کے چلنے میں کچھ پابندیاں بھی تھیں۔ مثلاََ یہ کہ جہاں پنڈسلطانی کی حد ختم ہو جائے وہاں سے تو گھوڑے کا رخ اس کا مالک موڑ لے گا مگر جب گھوڑا پنڈسلطانی کی حد میں چل رہا ہو گا تو پھر گھوڑا آزاد ہو گا ، جس طر ف کو مرضی جائے۔جب گھوڑے نے اپنا سفر مکمل کر لیا تو وعدے کے مطابق وہ ساری زمین سکھوں کے خلاف جنگ میں امداد کرنے پر پنڈسلطانی والوں نے دومیل والوں کو دے دی۔ اس جگہ کی حد وہی ہے جہاں سے گھوڑا گزرا تھا۔جب دومیل والوں کو زمین مل گئی تو انہوں نے وہاں کھیتی باڑی شروع کی ، وہاں کچھ گھرانے محلہ ٹیہہ میں آکر آباد بھی ہو گئے ۔ان لوگوں کی زمینیں دومیل میں بھی ہیں اور دومیل کے کچھ اورلوگوں کی زمینیں محلہ ٹیہہ میں بھی ہیں ۔بعد میں جب مختلف گاؤں کی زمینوں کی تقسیم ہو ئی تویہ محلہ دومیل ہی کودیا گیا کیونکہ یہاں آباد لوگ دومیل کے تھے۔یہی سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یہ تھی پنڈسلطانی کے محلہ ٹیہہ کی زمین دومیل کو دیئے جانے کی کہانی جو اب تک کئی افسانوی رنگ بھی اختیا ر کر چکی ہے ۔مثلاََ ایک بات یہ کی جاتی ہے کہ یہ زمین پنڈسلطانی کے ایک بڑے شخص ( سٹیٹ کے مالک وغیرہ) نے دومیل کے اپنے داماد کو دی اور کہا کہ تم گھوڑے پر بیٹھ کر جہاں تک جاؤ گے وہ زمین تمھیں دے دی جائے گی ۔یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ اگر زمین داماد کو دی جاتی تو اس کا مالک آج بھی ایک ہی خاندان ہوتا جبکہ سب جانتے ہیں کہ محلہ ٹیہہ کی زمین کے کئی مالک ہیں اور ان کے خاندان الگ الگ ہیں۔ لہٰذا یہ بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ زمین جنگ میں امداد کرنے کے صلہ اور دومیل والوں کے جانی نقصان کی تلافی کی طور پر دی گئی تھی۔اس حوالے سے کچھ اور باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں ۔مثلاََ یہ کہ حملہ کرنے والے رنگلی سے تھے ۔اور وہ فصلوں کا نقصان کرتے ۔اور جن گاؤں سے مدد مانگی گئی ان میں مٹھیال اور بسال وغیرہ بھی شامل تھے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ باتیں درست نہیں ۔دومیل والوں سے مدد اس بنا پر بھی مانگی گئی تھی کہ اس سے کئی سال قبل دومیل پنڈسلطانی کا ہی حصہ تھا ۔بلکہ دومیل کا نام ہی پنڈسلطانی سے دومیل دو ر ہونے کی وجہ سے دومیل رکھا گیا۔جب دومیل آباد ہوا تواس کا کوئی نام نہ تھا اور پہچان کے لیے کہا جاتا کہ وہ گھر یا آبادی جو پنڈسلطانی سے دومیل دور ہے اس کی یہ بات ہے وغیرہ۔انگریز دور حکومت میں جب ریلوے لائن بچھائی گئی تو ریلوے سٹیشن دومیل کا نام ’’پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن ‘‘ تھا ۔لہٰذا اس تعلق کی بنا پر صرف دومیل سے مدد طلب کرنے کی بات درست معلو م ہوتی ہے ۔باقی نہیں۔
آج شاید اہلیانِ ٹیہہ اس حوالے سے پریشان بھی ہیں کہ انہیں دومیل کی آبادی ہونے کی وجہ سے کچھ مشکلات بھی ہیں ۔یونین کونسل تھٹہ ہونے کی وجہ سے لو گوں کو وہاں جانا پڑتا ہے ۔حلقہ پٹوار اور الیکشن کے حوالے سے اندراج بھی اسی طرح کے مسائل پیدا کر رہا ہے۔اگر اہلیانِ ٹیہہ میری رائے پر عمل کریں تو وہ پھر سے پنڈسلطانی میں ہی شامل ہو جائیں۔
آپ کو گھوڑے والی یہ کہانی کیسی لگی ۔ضرور بتائیے گا!!
والسلام

Read More

Historical dhariyan of Pindsultani

پنڈسلطانی کی تاریخی ڈھیریاں

پنڈسلطانی کے ایک تاریخی گاؤں ہونے کی چند نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہاں کی تاریخی ڈھیریاں بھی ہیں۔کہا یہ جاتاہے کہ یہ تاریخی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھیں۔میں آج کے کالم میں اِسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا

پنڈسلطانی اور گردونواح کی ایک بڑی آؓبادی پنڈسلطانی کی بڑی تاریخی ڈھیری سے تو واقف ہے۔مگر اِس ڈھیری سے ذرا فاصلے پر دو الگ الگ مقامات پر موجود چھوٹی ڈھیریوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ان میں سے پہلی چھوٹی ڈھیری محلہ ٹیہہ کے گرلز سکول کے قریب پیر صاحبان کے پرانے کنویں اور بی بی صاحبہ کی زیارت کے درمیان بتائی جاتی ہے جو اب تک تقریباََ منہدم ہو چکی ہے۔تاہم جن بزرگوں کی عمریں ۱۰۰ سال کے قریب ہیں انہوں نے اس ڈھیری کو بھی کافی بلندی کی حالت میں دیکھا تھا۔اب اس کے صرف نشانات باقی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔

اگر ہم بڑی ڈھیری سے لاری اڈہ پنڈسلطانی کی طرف (پیدل راستے پر) آئیں تو دوسری چھوٹی ڈھیری اس راستے پر آتی ہے۔یہ زمین اب سردار احمد خان کی ہے لیکن ڈھیری نسبتاََ محفوظ ہے۔یہ کوئی دو تین کنال جگہ ہے جہاں چند پرانے درخت اور ایک قبر ہے۔اس قبر کے بارے میں بھی کسی کو کچھ پتا نہیں کہ یہ کس کی ہے۔یہ ڈھیری بھی اب زمین سے صرف چھ سات فٹ تک بلند رہ گئی ہے۔کچھ مٹی لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں اور کچھ بارشوں سے بہہ گئی ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل میں یہاں پر سلطان محمود غزنوی کی برصغیر آمد اور حملوں کے حوالے سے لکھی گئی تاریخ سے انحراف کرتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا ضروری خیال کرتاہوں۔
میں نے جب پنڈسلطانی کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے سلطان محمود غزنوی کے حوالے سے ان کے یہاں پڑاؤ کا ذکر کیا تو مجھے تاریخ کا علم رکھنے والے چند دوستوں نے بتایا کہ ہماری تاریخی کتب میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ سلطان محمود غزنوی اس راستے سے گزرا ہے۔اِ س سلسلے میں ، میں صرف اتنا عرض کروں گا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری تاریخ اِس حوالے سے بالکل خاموش نظر آتی ہے۔اگر موجودہ دور میں کسی نے تاریخ کی کتاب لکھ دی اور کہہ دیا کہ سلطان محمود غزنوی فلاں مقام سے گزرا تھا تو یہ اس مورخ کی محض قیاس آرائی بھی ہو سکتی ہے۔ہماری کسی بھی معتبر تاریخی کتاب میں تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر پر جو حملے کیے ان حملوں کے لیے کون کون سے راستے استعمال ہوئے ۔صرف چند مقامات کے نام ملتے ہیں۔اِسی لیے نامور مورخ ، مصنف اور صحافی سید حسن ریاض کو اپنی کتاب ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ کے صفحہ ۸ پر سلاطینِ غزنویہ کے دور کے بارے میں کہنا پڑا کہ
’’یہاں کیا حالات تھے اس کا کسی جگہ مفصل ذکر نہیں ۔اس دور کی تاریخ بالکل تاریکی میں ہے۔‘‘
اس حوالے سے دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے مؤرخین نے سلطان محمود غزنوی کو جی ٹی روڈ سے اس طرح سے گزاراہے جیسے وہ گاڑیوں میں سفر کر رہاہو اور اس کا محض چند گھنٹوں کا سفر ہو اور وہ یہ بات ( آج کے قاری کی طرح)بھول گئے کہ سلطان محمود غزنوی کا زمانہ گھوڑے ، خچر اور ہاتھی کا زمانہ ہے۔ہزاروں کی تعداد میں پیدل فوج کا زمانہ ہے۔اور پھر یہ بھی کہ سلطان محمود غزنوی نے برصغیر کے اسفار کے دوران کئی کئی ماہ اور سال یہاں قیام بھی کیا تھا۔
رہا یہ سوال کہ کیا سلطان محمود غزنوی پنڈسلطانی کے علاقے سے گزرا یا نہیں اورکیا اس نے یہاں قیام بھی کیا یا نہیں؟ جہاں تک میری معلومات ہیں پنڈسلطانی کا علاقہ افغانیوں کی گزرگاہ رہا ہے۔اس کا واضح ثبوت افغانستان سے آنے والی وہ سڑک ہے جو پشاور ، اٹک خورد سے اٹک شہر کے انتہائی مغرب میں گڑیالہ سے ہو کر کالا چٹا پہاڑ میں داخل ہوتی ہے اور ناڑہ موڑ ، دومیل ریلوے سٹیشن ، دومیل اور پنڈسلطانی کے مغرب سے ہوتی ہوئی ، پنڈسلطانی کے پرانے پولیس سٹیشن سے گزر کر سیدھی کوہاٹ روڈ سے مل جاتی ہے۔یقیناََانگریز دور میں ریلوے سٹیشن دومیل (جس کا پرانا نام پنڈسلطانی روڈ ریلوے سٹیشن تھا) اور پولیس اسٹیشن پنڈسلطانی اسی قدیم گزرگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہوں گے۔
اگر کالا چٹا کے درمیان آباد علاقوں (گنڈا کس ، لالو بنگلہ، ڈھوک موہری اور کالی ڈلی وغیرہ) کا جائزہ لیا جائے تو یہاں پہاڑ میں مختلف مقامات پر قبریں ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہ سلطان محمود غزنوی اور افغانستان سے آنے والے دیگر حملہ آوروں کے وفات پا جانے والے ساتھیوں کی قبریں ہیں۔اِس کا مطلب ہے کہ جب افغانستان سے آنے والے حملہ آوروں کی گزرگاہ یہ علاقہ رہا ہے تو پھر یہ بات سچ ہو گی کہ سلطان محمود غزنوی بھی اس راستے سے ایک یا زیادہ مرتبہ یہاں سے گزرا ہو۔اور یہاں قیام کیا ہو۔
پنڈسلطانی سے اٹک جاتے ہوئے، کالا چٹا پہاڑ میں گنڈا کس چوک سے تقریباََ دو سو میٹر کے فاصلے پر صدیوں پرانا ایک تالاب ہے جو یقیناََ کسی بادشاہ یا حکومت کا بنا یا ہوا ہے۔یہ ایک پختہ اینٹوں اور خوبصورت پتھروں سے بنایا ہوا تالاب ہے۔ جس کے ایک طرف پانی کھڑاہوتاہے اور دوسری طرف چند سو افراد کے بیٹھنے کے لیے ہموار جگہ ہے۔خطرناک پہاڑی علاقے میں تالاب اس خوبصورتی سے بنایا گیا ہے کہ انسان اور جانور دونوں پانی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ تالاب بھی اس علاقے کے پرانی گزرگاہ ہونے کا ایک ثبوت ہے۔
اب میں واپس پنڈسلطانی کی تیسری اور سب سے بڑی ڈھیری کی طرف آتاہوں۔جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سلطان محمود غزنوی نے بنوائی تھی تاکہ اس کی فوج اس پر ڈیرہ ڈال سکے اور اگر اس کا کوئی دشمن دور سے آتا دکھائی دے ، تو وہ اپنی فوج کو بروقت تیار کرلے ۔یہ ڈھیری قدرتی طور پر بنی ہوئی نہیں ہے اور خود ساختہ ہے۔ ڈھیری کا رقبہ ۲۵ کنال سے زائد ہو گا ۔ یہ ڈھیری ایسی جگہ بنائی گئی ہے جہاں آس پاس کے سارے علاقے میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے ۔ بڑی ڈھیری سے چھوٹی ڈھیریو ں کا فاصلہ تقریباََ دو سو سے تین سو میٹر ہو گا۔کہا جاتا ہے کہ بڑی ڈھیری جو رقبے اور اونچائی کے لحاظ سے بہت اونچی ہے ، سلطان محمود غزنوی کی فوج کے لیے تھی جبکہ باقی چھوٹی ڈھیریاں سلطان محمود غزنوی اور اس کے مصاحبوں کے لیے تھی ۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ خاص خاص ہتھیا ر بھی چھوٹی ڈھیریوں پر رکھے جاتے اور جب قافلہ چلنے لگتا تو ان کی تقسیم کر دی جاتی تھی۔
جب برصغیر میں زمینوں کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو بڑی ڈھیری والی زمین پنڈسلطانی کے جس خاندان کے حصے میں آئی ۔ یہ خاندان کو ٹے والے ( کورٹ والے) کہلاتا تھا۔اب ڈھیری کی وجہ سے ان کو ’’ ڈھیری والا ‘‘ ہی کہا جاتاہے ۔ اب ڈھیری پر ان لوگوں کا ہی قبضہ ہے اور انہوں نے ڈھیری کے اوپر قبرستان بنا لیا ہے ۔ایک دو قبریں تو بہت ہی قدیم ہیں مگر اس خاندان نے اپنا قبرستان بنانے کے لیے ڈھیری کو اوپر سے ہموار کرنا شروع کیا ہے اور جب قبروں کے لیے جگہ کم ہوتی ہے تو تھوڑا سا اور ہموار کر لیتے ہیں۔ دراصل اس اقدام سے ڈھیری کی اونچائی کم ہو رہی ہے اور اس کی تاریخی حیثیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔پنڈسلطانی کے نامور شاعر ذوالفقار علی خان خنجرؔ کی قبر بھی اس بڑی ڈھیری پر ہی ہے۔ جب ڈھیری کے اوپر والے حصے کو ہموار کیا جارہا تھا تو نیچے سے کچھ قبریں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ پھر شاید ہموار کرنے کا عمل روک دیا گیا تھا۔ بڑی ڈھیری سے لو گوں کو لوہے کی ایسی کئی چیزیں ملی ہیں جو ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ مٹی اور پتھر کے برتن بھی ملے ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں کسی نے طویل عرصہ قیام کیا ہے۔پنڈسلطانی کی تاریخ کے حوالے سے شہرت پانے والے نام خان خدا داد خان ، خان خواص خان اور رائے صاحب کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی رہائش بھی بڑی ڈھیری پر ہوا کرتی تھی۔
موجودہ پنڈسلطانی جو ڈھیری کے قریب ہے ، تیسری بار آباد ہوا ہے ۔ لیکن اسے لوگوں کی عدم توجہی کہیں یا محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت کی لاپرواہی ، کہ پنڈسلطانی کی یہ تاریخی ڈھیری دن بدن شکست و ریخت کا شکار ہے اور آج ایک ہزار سال گزر جانے کے باوجود اس کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ اگر آنے والے وقتوں میں ایسا کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو چھوٹی ڈھیریوں کی طرح یہ بڑی ڈھیری بھی اپنی تاریخی حیثیت کھو دے گی اور اس کے سب سے بڑے مجرم ہم خود ہوں گے۔
اپنی رائے سے ضرور نوازئیے گا۔۔۔شکریہ
والسلام

Read More

محمد داؤد مصطفائی ؒ کا لڑکپن

محمد داؤد مصطفائی ؒ کے بچپن کی طرح ان کا لڑکپن بھی عام لڑکوں سے بہت مختلف تھا۔والدین اور اساتذہ کی بہترین تربیت نے ان کے لڑکپن میں بھی خوبصورت رنگ بھرے اور داؤد مصطفائی اپنے لڑکپن میں روایتی لڑکوں سے ہٹ کر سنجیدہ ، بارعب اور نہایت سلجھے ہوئے انداز میں رہتے تھے۔
داؤد مصطفائی ؒ نے پنڈسلطانی سے آٹھویں جماعت پاس کر کے گورنمنٹ ہائی سکول ٹوبہ دومیل میں جماعت نہم میں داخلہ لیااور یہاں سے میٹرک کی۔اس دوران آپ کو جن اساتذہ سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا ان میں ہیڈماسٹر سید سجاد حسین نقوی(بھٹیوٹ)، غلام خان صاحب (پنڈسلطانی)،محمد نذیر صاحب (پنڈسلطانی)،محمد بشیر صاحب (بسال)،عبدالعزیز صاحب(دندی جسوال،ناڑہ)،وزیر ابدالی صاحب(مکھڈ شریف) اور لباس خان صاحب(چھب) شامل تھے۔عبدالعزیز صاحب اور وزیر ابدالی داؤد مصطفائی ؒ کے پسندیدہ استاد تھے۔تمام اساتذہ داؤدمصطفائی ؒ سے بہت محبت کرتے تھے۔جب اساتذہ کے علم میں یہ بات آئی کہ داؤد مصطفائی سٹیج پر آکر چھوٹی موٹی تقریر کر لیتا ہے تو انہوں نے داؤدمصطفائی پر باضابطہ محنت کی او رکلاس اور سکول کی سطح پر داؤدمصطفائی تقریر کرنے لگے۔پہلی دفعہ جب کلاس سے نکل کر پورے سکول کے سامنے تقریر کی تو سکول میں جیسے ایک ہلچل سی مچ گئی۔وہ اساتذہ جو داؤد مصطفائی کو اس حوالے سے نہ جانتے تھے ایک لڑکے کی اتنی پرجوش آواز سن کر حیران رہ گئے اور ہر طرف سے داد و تحسین بلند ہونے لگی اور بہت سے اساتذہ اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔پھر فیصلہ ہوا کہ اس لڑکے (داؤدمصطفائی) کو ضلعی سطح کے تقریری مقابلے میں بھیجا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیااور ضلع بھر میں داؤدمصطفائی نے تقریری مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔
داؤدمصطفائی شروع سے ہی کسی کے ساتھ زیادتی ہوتا نہ دیکھ سکتے تھے۔پھر اگر کوئی ان کے ہم جماعت یا دوستوں سے زیادتی کرے یہ کیسے ممکن تھا کہ داؤد مصطفائی اس کے مقابلے کو نہ آئے۔ایک دفعہ ٹھیکیدار محمد اقبال مرحوم (جو داؤد مصطفائی کے ہم جماعت تھے) کی دومیل کے کچھ لڑکوں سے کسی بات پر لڑائی ہوئی۔دوسرے دن دومیل والے لڑکوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔کسی طرح داؤد مصطفائی کو اس بات کا علم ہو گیا۔انہوں نے ٹھیکیدار محمد اقبال کو نہ بتایا اور خود اپنے ایک ہم جماعت جاوید اقبال بیگ کو اپنے ہمراہ لے کر محمد اقبال سے بہت پہلے دومیل منڈی پر پہنچ گئے۔جہاں دومیل کے لڑکوں نے محمد اقبال کا راستہ روکنا تھا۔داؤدمصطفائی کی آمد کا جب دومیل کے لڑکوں کو علم ہوا تو وہ مقابلے کے لیے آئے ہی نہیں۔اِدھر داؤدمصطفائی اور جاوید اقبال بیگ ہاتھوں میں ڈنڈے لیے بیٹھے تھے کہ سکول کے وقت پر ٹھیکیدار محمد اقبال بھی آگیا اور حیران ہوا کہ یہ لوگ آج اتنا جلدی کیوں آگئے اور ڈنڈے لے کر کیوں بیٹھے ہیں۔محمد اقبال کے پوچھنے پر داؤدمصطفائی نے جب اصل ماجرا سنایا تو محمد اقبال ، داؤ دمصطفائی کے اس تعاون پر بہت خوش ہوا۔دونوں کی یہ دوستی آخری دم تک قائم رہی۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ داؤد مصطفائی دوستوں پر بہت مہربان اور ان کی خاطر جان دینے والے شخص تھے۔
ایک دفعہ داؤدمصطفائی کے ایک ہم جماعت دوست نے ایک لڑکے کا چاقو بطور مذاق کہیں چھپا دیا۔چاقو والے لڑکے نے استاد سے شکایت کر دی۔استادصاحب نے کچھ لڑکوں کو بلا کر پوچھا جب انہوں نے نہ بتایا تو انہوں نے کان پکڑا کر اچھا خاصا مارا ۔ داؤدمصطفائی مار کھاتے رہے مگر دوست کا راز فاش نہ کیا۔
داؤد مصطفائی اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔پوری زندگی میں اگر کوئی شخص ان کے اساتذہ کے خلاف کوئی بات کرتا تو وہ ا س کا گریبان پکڑ لیتے تھے۔ایک دفعہ دومیل سکول کے پی ٹی آئی ممتاز احمد ہمدانی کی شا ن میں مٹھیال کے لڑکوں نے گستاخی کی تو داؤدمصطفائی نے ان لڑکوں کو للکارا اور کہاکہ ’’ہمدانی صاحب!آپ فکر نہ کریں۔مجھ سے ہو کر ہی کوئی آپ تک پہنچے گا۔‘‘
بچپن کی نسبت لڑکپن میں داؤد مصطفائی کے مذہبی رجحان میں اور زیادہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔کئی لڑکوں کو نعت خوانی کی طرف لگایا۔داؤد مصطفائی کے ایک ہم جماعت پرویز نمبردار جن کا نعت کی طرف بالکل رجحان نہ تھا، داؤدمصطفائی کے کہنے پر نعت شریف پڑھنا شروع کی اور آخرکار اول انعام حاصل کیا ۔چھٹی ساتویں جماعت کی عمر سے ہی داؤدمصطفائی نے اپنے محلے کے عالم دین جو داؤد مصطفائی کے استاد بھی تھے(قاضی فیض عالم)سے درخواست کی کہ ہر جمعہ کی رات نماز عشاء کے بعد آپ نوجوان لڑکوں سے کچھ خطاب کیا کریں جس میں انہیں اپنے عقیدے کا پابند بنائیں۔نماز، روزہ وغیرہ کی تلقین کریں ۔قاضی فیض عالم مرحوم نے یہ کام بطریق احسن سر انجام دیا۔اس کام میں داؤدمصطفائی کے محلے کے دوستوں محمد زمان اور حبیب الرحمٰن ٹیلر نے بھی ان کا بڑا ساتھ دیا۔
داؤدمصطفائی کا ذہن بچپن سے ہی تنظیم سازی کی طرف تھا۔دوستوں کے ساتھ مل کر اور ایک جماعت کی شکل میں چلنا اور کوئی کام کرنا انہیں بہت پسند تھا۔۱۹۸۱ء ؁ سے ہی وہ کسی تنظیمی فورم کی تلاش میں تھے۔میٹرک سے فارغ ہو کر انہوں نے اس کام پر زیادہ توجہ دی۔اور دوستوں اور محلے کے لڑکوں کو اکھٹا کر کے اپنی ایک تنظیم قائم کرلی۔اس تنظیم کے مقاصد میں اپنے مسلک کا پرچار ، نعت خوانی ، محفل قرآن کا انعقاد ،غریبوں کی مدد، منشیات کے خلاف آواز اٹھانا، محلے کی مسجد کی توسیع وغیرہ شامل تھے۔داؤدمصطفائی مذہبی انتہا پسند نہ تھے مگر وہ شروع سے ہی اپنے مسلک کا پرچار اپنا فرض سمجھتے تھے۔وہ اپنے مسلک کا بہت بڑا دفاع بھی تھے۔سچے اور پکے عاشق رسولؐ تھے۔
اسی تنظیم کے فورم سے داؤد مصطفائی نے اپنی لڑکپن کی عمر میں ہی اپنے محلے کے دوستوں سے مل کر منشیات کے خلاف کام کرنا بھی شروع کیا۔بعد میں اگرچہ اس کام نے بڑی وسعت اختیار کر لی تھی مگر شروع شروع میں اس کا طریقہ کار نہایت سادہ تھا۔داؤد مصطفائی اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر نشے کے چھوٹے موٹے ڈوں ، ڈیروں اور بیٹھکوں پر جاتے اور نشہ کرنے والے نوجوانوں کو نشے کے مضر اثرات کے بارے میں بتاتے تھے داؤد مصطفائی کا یہ انداز نہات پیاربھرا اور اصلاح والا ہوتا تھے۔ اپنی لڑکپن کی عمر سے ہی نشے کے عادی افراد سے دوستی پیدا کر کے ان سے نشے کا عمل چھڑوا دینا داؤد مصطفائی کا بڑا کارنامہ ہے۔بعد میں یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا اور محلے کے ایک دکان دار ( حبیب الرحمٰن ٹیلر) کے ذریعے معلومات لی جاتیں کہ کون کون نشہ کرتا ہے اور کہاں سے آتا یا تیا ر ہوتا ہے ۔پھر ممکن حد تک ان تمام لوگوں کی اصلاح کرتے تھے۔
اس تنظیم کے ذریعے داؤد مصطفائی نے اپنے محلے کی مسجد میں عید الفطر کے دوسرے روز عید ملن پروگرام بھی شروع کیا۔ اس پروگرام میں ملکی سطح کے مذہبی سکالرز کر بلایا جاتا تھا۔داؤدمصطفائی ان سکالر ز کو خاص طور پر ہدایت کرتے کہ قرآن وسنت سے ہٹ کر کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو مذہبی یا مسلکی منافرت کا باعث بنے۔
میٹرک کے بعد داؤد مصطفائی نے ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر جنڈ میں دوستوں کے ہمراہ داخلہ لیا۔ پہلے دوسرے روز ہی نیو خان بس والوں سے جھگڑا ہو گیا۔ چند دن بعد داؤدمصطفائی نے ٹریننگ سینٹر چھوڑ دیا۔جھگڑے کی وجہ بھی داؤدمصطفائی کے دوست تھے۔
داؤد مصطفائی شروع سے ہی غریب کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے۔ہر قیمت پر غریب کا ساتھ دیتے تھے۔یہاں تک کہ ایک دفعہ داؤدمصطفائی اپنی والدہ سے محض اس بات پر خفاہو گئے کہ وہ محلے کے مصلیوں کے بچوں کو بہت خفا ہوئیں۔جب داؤد مصطفائی کو پتہ چلا تو ان کا رنگ سرخ ہو گیا کہ غریب کے بچوں کو والدہ کیوں خفاہوئیں۔اسی غصے کی حالت میں والدہ سے کہا کہ ’’ اگر آپ میری والدہ نہ ہوتیں تو میں آپ سے ان غریبوں کو خفا ہونے کا بدلہ لیتا۔‘‘
داؤدمصطفائی مولانا الشاہ احمد نورانی ؒ کے تحریک ختم نبوت اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ذاتی طور پر ان کی شخصیت سے داؤد مصطفائی کو عشق کی حد تک عقیدت تھی۔اسی عقیدت نے داؤدمصطفائی کو مولانا اشاہ احمد نورانیؒ کی جماعت جمیعت علمائے پاکستان کی طرف کھینچ لایا۔میٹرک کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ ؒ حاجی غلام قادر کے ہمراہ جمیعت علمائے پاکستان کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اٹک گئے۔ پروگرام میں حاجی غلام قادر ( جو جمیعت علمائے پاکستان کے رہنما تھے) سے درخواست کی گئی کہ وہ تقریر کریں تو انہوں نے اپنی جگہ داؤد مصطفائی کا نام دے دیا۔ اس سے قبل داؤد مصطفائی نے اس طرح کے پروگرام میں تقریر نہ کی تھی۔اچانک اپنا نام سن کر چہرہ سرخ ہو گیا۔مگر تقریر کے لیے اٹھ کر چلے گئے اور بہت آہستہ آہستہ اور نرم لب و لہجے میں تقریر کی۔یہ داؤدمصطفائی کی کسی بڑے جلسے میں پہلی تقریر تھی۔پروگرام کے بعد داؤدمصطفائی نے حاجی غلام قادر سے گلہ کیا کہ جب میں تقریر کے لیے تیار نہ تھا تو آپ نے میرا نام کیوں دیا تو حاجی غلام قادر نے کہا کہ ’’آپ نے بڑا لیڈر بننا ہے۔لیڈر کو خطاب کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔آئندہ جب بھی کسی پروگرام کے لیے آؤ تو تیار ہو کر آیا کرو۔‘‘ پھر داؤد مصطفائی بھی ایسا ہی کرتے رہے۔
داؤدمصطفائی کالڑکپن کی عمر میں ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ۱۹۸۶ء ؁ میں سنتِ رسولؐ ( داڑھی) رکھنے کے حوالے سے ایک دفعہ خصوصی مہم چلائی اور اپنے بہت سارے دوستوں اور دیگر لوگوں کو تیار کیا کہ وہ سنت کے مطابق داڑھی رکھناشروع کریں ۔جب کچھ دوست تیار ہو گئے تو داؤد مصطفائی نے ۲۷ رمضان المبارک کی تاریخ کا اعلان کیا کہ اِ س تاریخ کو ہم سب داڑھی رکھیں گیا اور اس کے بعد شیو نہ کرائیں گے۔اس تاریخ کو خود داؤدمصطفائی نے بھی داڑھی رکھی اور ان کے دوستوں محمد امین ، محمد زمان اور سیف اللہ وغیرہ نے بھی داڑھیاں رکھیں۔ گویا داؤدمصطفائی کی ترغیب سے کئی لوگ سنت پر عمل پیرا ہوئے۔
آج تک کے لیے اتنا ہی۔۔۔! آ پ کو یہ کالم کیسا لگا۔ اپنی رائے ضرور دیجیے گا ۔اگرآپ کے پاس داؤد مصطفائی کے حوالے سے کوئی بات یا ان کی کوئی تصویر ہو تو برائے مہربانی مجھ تک پہنچائیں۔شکریہ
Armaan1465

Armaan1886

Armaan1887

Armaan1885

Read More

Dr. Khalid Amir

IMG-20150710-WA0013
IMG-20150710-WA0010
IMG-20150709-WA0002
Dr.Khalid Amir is name for pindsultani, he has achieved so much in medical field and has done so much for people and our pind. Below is his work and carrer in quick glance.
MBBS, MCPS , DOMS , 30 Years experience in Ophthalmology (Eye) , Done lost of free eye camps including 35 camps in Jand city, 8 in pindi gheb city, innumerable in villages of these cities, 17 in Mian Channun , 20 in Kasur, 4 in Karbogha sharif (Distt Hango), 7 in distt MianWali, 4 in Kashmir, 3 in Sawat ,2 in Kohat, 1 in Gilgit , 1 in DIKhan and 1 in Distt Bannun.
Worked in Bahawal Victoria Hospital Bahawalpur,DHQ Hospital Sahiwal, Sir Game game Ram Hospital Lahore, THQ Hospital Jand and RHC Domail.
IMG-20150710-WA0010

Read More

Congratulations to Dr.Azmat Hayat Khan

1795476_821984121190779_2784770682356009155_n

Congratulations to Dr.Azmat Hayat Khan who has recently completed his PHD in Meteorology.

He graduated from the Department of Mathematic University of the Punjab in 1987. He started his career in 1990 as meteorologist. He worked in various capacities in Pakistan Meteorological Deptt (PMD) and presently Head of Remote Sensing and ICT Centre and Director of National Drought Monitoring Centre of PMD. Dr Khan has published more than 27 research articles in peer reviewed journals and conference proceedings. His present research activities are focused on drought monitoring and prediction. He is also a member of WMO information system (WIS), SAARC STORM project, SAARC monsoon initiative program and Asia Pacific Satellite Applications Program. He did his MS in Meteorology from COMSATS Institute of Information Technology, Islamabad in 2008. Later, he enrolled for PhD in 2011 in CIIT earned Ph.D degree in Meteorology from COMSATS Islamabad.

He conceived four projects on “strengthening early warning system in Pakistan” and won funding from international donors (SLMP/GEF, WFP, RIMES and UNDP) during the last three years. At national level, he is member of Committee on Mainstreaming DRR and Technical Committee on multi-hazard mapping project.

Read More